عیدالاضحی کی تعطیلات کے دوران ملکی و مقامی سیاحوں نے بڑی تعداد میں خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں کا رخ کیا‘ جہاں عید کے پہلے دن (اکیس جولائی) کی شام سے قیام و طعام کی سہولیات میں کمی اور گنجائش سے زیادہ موٹرگاڑیوں کی آمد کے باعث ٹریفک کی روانی متاثر رہی اور سیاحوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 35 اضلاع پر مشتمل خیبرپختونخوا انتظامی طور پر 7 ڈویژنز میں تقسیم ہے جن میں ہزارہ ڈویژن ایبٹ آباد‘ بٹ گرام‘ ہری پور‘ کوہستان اور ضلع مانسہرہ جبکہ اور مالاکنڈ ڈویژن بونیر‘ چترال‘ لوئر دیر‘ مالاکنڈ‘ شانگلہ‘ سوات اور ضلع بالائی دیر پر مشتمل ہے۔ اِن اضلاع میں رقبے کے لحاظ سے 14 ہزار850 مربع کلومیٹرز پر محیط) سب سے بڑا ضلع ’بالائی چترال‘ ہے لیکن وہاں سفری و دیگر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں کی بہت کم تعداد چترال کی دور دراز وادیوں کا رخ کرتی ہے جبکہ چترال کی کئی وادیوں میں جانے کیلئے ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنر) کے دفتر سے اجازت نامہ حاصل کرنا بھی ہوتا ہے‘ اِس لئے چترال کی جانب سیاحوں کا رخ نہیں ہو رہا۔ خیبرپختونخوا حکومت اگر سیاحت کا فروغ چاہتی ہے جو کہ وزیراعظم عمران خان کے انقلابی و ترقیاتی نظریات میں سرفہرست ہے تو اِس کے سیاحوں کی آزادانہ آمدورفت اور اُن کے لئے قیام و طعام کی معیاری اور کم قیمت سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی۔ اِس سلسلے میں سیاحتی وسائل و امکانات سے مالا مال اضلاع اور علاقوں میں ’سیاحتی (ایف ایم) ریڈیو‘ کے ذریعے قیام و طعام اور ٹریفک سے متعلق معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں جبکہ سیاحوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قواعد و ضوابط کی پابندی اور سیاحتی مقامات پر فراہم کردہ سہولیات کی حفاظت سے متعلق ذمہ داری کی بار بار یاد دہانی کروائی جا سکتی ہے۔ علاؤہ ازیں سیاحتی مقامات کی تاریخ و ترقیاتی امور‘ وہاں پائی جانے والی جنگلی حیات‘ ماحولیاتی تنوع اور تبدیل ہوتے موسم کے بارے میں معلومات بھی فراہم کی جا سکتی ہیں چونکہ ماسوائے ضلع چترال کے چند علاقوں خیبرپختونخوا کے دیگر سبھی سیاحتی مقامات پر کسی نہ کسی موبائل فون کمپنی کے ذریعے مواصلاتی رابطہ کاری ممکن ہوتی ہے اور موبائل فونز (ڈیٹا کنکشن) ہی کے ذریعے انٹرنیٹ بھی سیاحوں کے زاد راہ میں شامل ہوتا ہے اِس لئے تھوڑے سے خرچ اور زیادہ توجہ (کثیرالجہتی منصوبہ بندی) سے سیاحت کے عمل کو زیادہ خوشگوار (یادگار) بنایا جا سکتا ہے۔عیدالاضحی ہو یا کوئی بھی دوسرا تہوار یا کسی قومی دن کی مناسبت سے تعطیلات‘ سیاحوں کا پہلا پڑاؤ ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام ’ایبٹ آباد‘ میں ہوتا ہے جہاں اِن دنوں برسات کا موسم (مون سون سیزن) شروع ہو چکا ہے اور مون سون کی پہلی چند بارشوں کے بعد جب نصف سے زیادہ شہر اور بالخصوص ایبٹ آباد کی جدید آبادیاں‘ مہنگے ترین (پوش) رہائشی و تجارتی علاقے زیرآب آئے‘ تو بھاری آلات کے ذریعے برساتی نالوں کی صفائی اور نکاسیئ آب کے نالوں کی کھدائی شروع کی گئی اور یہ عمل مرکزی شاہراہئ قراقرم کے اطراف میں جاری ہے‘ جس کی وجہ سے ایبٹ آباد سے گزرنے والی ٹریفک کو مشکلات پیش آتی ہیں۔ بالائی ایبٹ آباد تک متبادل رسائی کیلئے ’حویلیاں دھمتوڑ بائی پاس روڈ‘ پر لاگت کا ابتدائی تخمینہ 1815 ملین روپے لگایا گیا۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ مقام پر خستہ حال سڑک پہلے ہی سے موجود تھی‘ جسے کشادہ اور چند پُرپیچ مقامات پر آسان بنانا تھااور منصوبہ تھا کہ اِسے نہ صرف گلیات کی جانب جانے والی شاہراہ سے جوڑ دیا جائے گا بلکہ N-35 کہلانے والی شاہراہئ قراقرم سے بھی اِس کا رابطہ بحال کر دیا جائے گا جس سے ایبٹ آباد کے راستے گلیات جانے والے مقامی و غیرمقامی سیاحوں کو آسانی رہے گی۔ اطلاعات ہیں کہ حالیہ مون سون بارشوں نے کئی مقامات پر اِس اہم شاہراہ کے جاری تعمیراتی کام کو نقصان پہنچایا ہے۔ مٹی کے تودے گرنے اور برساتی نالے میں طغیانی سے کروڑوں روپے مالیت کی تعمیرات بہہ گئیں ہیں یا اُن میں شگاف پڑ چکے ہیں۔ اِس مرحلہئ فکر پر ’نیشنل ہائی ویز اتھارٹی‘ کے فیصلہ سازوں کی توجہ بھی ایبٹ آباد کے سیاحتی و قومی اہمیت کی جانب مبذول کروانا ہے جنہوں نے ایبٹ آباد کے آغاز و اختتام پر موٹروے انٹرچینجز بنائے لیکن وسطی ایبٹ آباد کو بھول گئے! مسلم آباد (سلہڈ) انٹرچینج آخری وقت میں مقامی افراد کے احتجاج پر بنایا گیا‘ جو ہنوز نامکمل اور ٹریفک دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے وسعت کے لحاظ سے ناکافی ہے۔ M-15 نامی 180کلومیٹر طویل موٹروے پر کام کا آغاز ’29 نومبر 2014ء‘ کو سنگ بنیاد رکھنے سے شروع ہوا اور یہ شاہراہ 7 تعمیراتی مراحل میں تقسیم کی گئی جس کے پہلے 4 مراحل27 دسمبر 2017ء‘ کے روز ٹریفک کے لئے کھول دیئے گئے جبکہ باقی ماندہ سڑک کے 3 حصوں کو ’جولائی 2020ء‘ میں مکمل ہوئے بغیر فعال کر دیا گیا اور ہنوز اِن 7 حصوں پر کہیں نہ کہیں تعمیراتی کام جاری ملتا ہے!قابل ذکر یہ بھی ہے کہ اِس شاہراہ کا ڈیزائن کچھ ایسا ہے کہ بھاری (وزنی مال بردار) گاڑیاں ہزارہ موٹروے کا استعمال نہیں کرتیں اور ایبٹ آباد کے وسط سے گزرنے کو ترجیح دیتی ہیں‘ جسے چند ماہ قبل ازسرنو تعمیر کیا گیا ہے اور اگر ’ہزارہ موٹروے پرسہولیات کی فراہمی یقینی نہ بنائی گئی تو ایبٹ آباد سے گزرنے والی شاہراہ قراقرم ایک مرتبہ پھر بھاری ٹریفک کے بوجھ کی وجہ سے اُکھڑ جائے گی اور یوں قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوگا۔