1989ء اور2021ء کا افغانستان۔۔۔۔۔

امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملر نے اعتراف کیا ہے کہ افغانستان کے 419 ضلعی مراکز میں سے دو سو سے زائد طالبان کے قبضے میں ہیں، امریکہ کی زیرِ کمان بیرونی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد افغانستان میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس اداروں نے خبردار کیا ہے کہ افغان حکومت 6 ماہ سے بھی کم عرصہ میں ختم ہوسکتی ہے۔ طالبان تیزی سے افغانستان پر کنٹرول حاصل کررہے ہیں۔ افغان فورسز کی توجہ کابل کے دفاع اور سٹرٹیجک علاقوں کو محفوظ رکھنے پر مرکوز ہے۔ اہم انفراسٹرکچر میں بھارت کی مدد سے تعمیر کردہ ڈیم اور بڑی شاہراہیں شامل ہیں۔ افغان حکومت کی جانب سے محدود جگہوں پر توجہ مرکوز کرنے سے افغان عوام میں یہ تاثر پیدا ہوگا کہ حکومت نے انہیں طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے،دوسری جانب ایک اعلیٰ افغان عہدے دار کا کہنا ہے کہ نئی حکمت عملی کی فوری ضرورت ہے کیونکہ افغان فوج صوبائی دارالحکومتوں کو کھونے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔پینٹاگون نے بھی تصدیق کی ہے کہ طالبان نے آدھے سے زیادہ افغانستان کے ضلعی مراکز پر قبضہ کرلیا ہے۔ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء 95 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ 31 اگست تک تمام غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی۔ افغان سکیورٹی حکام انفراسٹرکچر اور سرحدی راہداریوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ فوجی ماہرین نے اسے سیاسی طور پر ایک خطرناک حکمت عملی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سیکیورٹی حکام نے اگر یہ غلطی کی تو افغانستان کے دیگر علاقے بھی طالبان کے قبضے میں چلے جائیں گے لیکن حکومت بضد ہے کہ فوج کو پورے ملک میں پھیلانے کے بجائے کچھ علاقوں تک محدود کرنا چاہئے۔طالبان کی فوجی فتوحات کے بارے میں امریکی حکام اور محکمہ دفاع کی طرف سے جو بیانات سامنے آرہے ہیں ان سے یہی تاثر ملتا ہے کہ امریکی حکومت اورمیڈیا طالبان کی فتوحات کی جان بوجھ کر تشہیر کر رہے ہیں تاکہ کابل حکومت کو یہ باور کرایا جاسکے کہ اشرف غنی حکومت کی رٹ امریکی فوج کی مرہون منت تھی اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اشرف غنی حکومت صرف دارالحکومت کابل تک محدود ہے۔ دوسری طرف افغان حکومت نے طالبان کی تیزی سے پیش قدمی، ضلعی ہیڈکوارٹرز پر کنٹرول اور اگلے چھ ماہ کے دوران اشرف غنی حکومت کا دھڑن تختہ ہونے سے متعلق امریکی حکام کے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا آج بھی افغانستان پر مکمل کنٹرول ہے اور عسکریت پسندوں سے چھینے گئے تمام علاقے واپس لئے جارہے ہیں۔افغان سیاسی دھڑوں کے بیانات اور ایک دوسرے پر الزامات سے ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان آج بھی اسی موڑ پر آگیا ہے جس موڑ پر سوویت فوج کے انخلاء کے بعد 1979میں تھا۔ اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار کیلئے لامحالہ رسہ کشی شروع ہوگی۔کیونکہ شراکت اقتدار پر متحارب دھڑوں میں اتفاق رائے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔عسکری تیاریوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو طالبان کو دیگر افغان دھڑوں پر واضح برتری حاصل ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ طالبان رواں سال کے اختتام یا اگلے سال کے اوائل میں افغانستان میں اپنی حکومت قائم کریں گے۔ چونکہ انہیں ملک کے بیشتر حصوں پر کنٹرول حاصل ہوگیا ہے لیکن افغانستان میں پائیدار امن کے قیام اور خانہ جنگی کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ وہاں تمام سیاسی قوتوں پر مشتمل ایک وسیع البنیاد قومی حکومت کا قیام عمل میں لایاجائے جس میں تمام گروپوں کو ان کی عددی اکثریت کی بنیاد پر نمائندگی ملے اور شراکت اقتدار کی صورت میں ہی تمام افغان گروپ اپنے ملک کی تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اب بہت بدامنی اور مصیبتیں افغانستان نے جھیل لی ہیں اور مزید کوئی گنجائش نہیں رہتی تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ افغان قیادت اپنے آپس کے اختلافات اور ناچاقی کو نظرانداز کرتے ہوئے مستقبل میں پائیدار امن اور ملک کی ترقی و خوشحالی کی منصوبہ بندی اور مربوط نظام پر توجہ مرکوز کریں اس طرح نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں ترقی و خوشحالی کا سفر تیز ہو سکتا ہے جس کے ثمرات پر خطے کے عوام کا حق ہے۔