1986کی بات ہے یونیورسٹی ٹاؤن میں امریکی قونصلیٹ کی لائبریری میں کوئی تقریب منعقد ہورہی تھی پشاور یونیورسٹی کے وی سی اور دیگر مہمانوں کے ساتھ شعبہ سیاسیات کے ایک پروفیسر صاحب بھی شریک تھے دوران گفتگو امریکی قونصل جنرل نے پروفیسر صاحب سے سوال کیا کہ اگروہ پاکستان کے حکمران بن گئے تو پہلا کام کیا کرینگے انہوں نے برجستہ کہاکہ میں امریکیوں پرپابندی لگا کر سب کو اپنے ملک سے نکال دوں گا قونصل جنرل نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہاکہ آپ ہمیں نکال دینگے تو ہم آپ کی امداد بند کر دیں گے اس پر پروفیسر صاحب نے فوراً کہا کہ ہم آپ کا شکریہ ادا کرینگے کیونکہ کم از کم کشکول سے تو جان چھوٹ جائے گی بات ختم ہو گئی مگر پروفیسر صاحب کے دل میں یہ خیال موجود رہا کہ اب ان امریکیوں کوعملی جواب بھی دینا چاہئے۔ انہی دنوں امریکہ نے لیبیا کے صدر کرنل قذافی کی رہائش گاہ پر حملہ کیا جس میں ان کی ایک بچی جاں بحق ہوگئی اس پر پروفیسر صاحب نے جو ان دنوں پیوٹا کے صدر تھے پشاور، انجینئرنگ اورزرعی یونیورسٹی کے اساتذہ کی جنرل باڈی کا اجلاس بلایا اور ایک قرارداد منظور کرائی کہ کوئی امریکی پشاور یونیورسٹی کی حدود میں داخل نہیں ہوگا اور اگر کوئی آئے تو اپنے رسک پر آئے گا یہ بہت بڑا فیصلہ تھا جس پر اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیاء الحق نے بھی ناراضگی کااظہار کیاتھا امریکیوں پر پابندی 3سال تک عائد رہی۔ امریکیوں پر پابندی لگانے کاکارنامہ انجام دینے والے پروفیسر محمداقبال تاجک تھے جو اب تو مرحوم ہوچکے مگر جب تک زندہ رہے ان کی کوشش رہی کہ کسی پربوجھ نہ بننے پائیں وہ افغانستان،پاکستان اور ہندوستان کے کلچر اور تمدن کا حسین امتزاج تھے کیونکہ ان کے والد افغانستان کے شہر جلال آباد کے گاؤں بے سود سے ہجرت کر کے متحدہ ہندوستان کے شہر پشاور آئے پھر یہاں سے ممبئی چلے گئے پروفیسر اقبال تاجک ممبئی میں 25جنوری1939ء کو پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی قیام پاکستان کے بعد بھی ان کے والد وہیں مقیم رہے اور 1956ء میں پاکستان آگئے ان کے والد عبدالحکیم باچا خان کی تحریک کے سرگرم رکن تھے پشاور آکر اقبال تاجک نے سینٹ جانز سکول کوہاٹی گیٹ سے میٹرک کرنے کے بعد ایف اے اور بی اے پرائیویٹ طورپر پاس کیا پھر1962ء میں پشاور یونیورسٹی کے شعبہئ سیاسیات میں داخلہ لے لیا یہ شعبہئ سیاسیات کا بانی بیچ تھا بعدازاں 1966ء میں انہوں نے ایم اے ہسٹری کی ڈگری بھی حاصل کی پہلے سینٹ میری سکول اور بعدازاں کینٹ پبلک سکول(موجودہ ایف جی پبلک سکول) میں بطور معلم فرائض انجام دیئے1974ء میں اسلامیہ کالج میں لیکچرر مقرر ہوئے اورپھر1983ء میں پشاوریونیورسٹی کے شعبہئ سیاسیات میں پروفیسر کے طور پر پڑھانا شروع کر دیا 1996ء میں اسی شعبہ کے چیئرمین بنے اور1999ء میں ریٹائر ہوگئے ریٹائرمنٹ کے ایک عرصہ بعد تک یونیورسٹی میں کلا سز لیتے رہے اقبال تاجک مرحوم کھلے مزاج کے مالک تھے صاف بات کرتے تھے اپنے نظریات کو چھپانے کی کوشش نہیں کی وسیع المطالعہ انسان تھے کتاب کے ساتھ گہری دوستی کبھی کم نہیں ہونے دی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے کیونکہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ لکھنے لکھانے اور پڑھنے پڑھانے کے علاوہ ”امور خانہ داری“ کے بھی ماہر تھے راقم نے تیرہ نومبر 2014کو ان کاتفصیلی انٹرویو کیاتھا جو بعدازاں روزنامہ آج کے سنڈے میگزین میں شائع ہواتھا پروفیسراقبال تاجک مرحوم نے ابتدائی تعلیم ممبئی سے حاصل کی تھی وہا ں کے اردو میڈیم سکول میں ان کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر کے طورپر ترکھان کاکام بھی سکھایا جاتارہا اسی طرح جب ممبئی کے انگلش میڈیم سکول میں داخل ہوئے تو وہاں ان کو درزی کاکام بھی سکھایا گیا دوران ملاقات ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ آج اتنے عرصہ بعد بھی میں کسی مشاق ترکھان سے کم ہر گز نہیں میرے گھر میں آج بھی تمام متعلقہ اوزار موجود رہتے ہیں اور گھر کے تمام چھوٹے موٹے متعلقہ کام آج بھی خود ہی کر لیتا ہوں گھر کے پردے اور بیڈ شیٹ سی لیتا ہوں گویا اتنا اچھا نظام تعلیم تھا کہ علم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھایا جاتا کہ صرف نوکری کی محتاجی نہ رہے اقبال تاجک مرحوم کی خواہش تھی کہ اسی طرح کانظام تعلیم ہمارے ہاں بھی نافذ ہوجائے مگر ان کی تجاویز اے این پی اور پی ٹی آئی دونوں کی حکومتوں نے نظر انداز کردی تھیں جن کا انہیں بہت افسوس تھا اقبال تاجک مرحوم کے خیال میں 1970ء میں مشرقی پاکستان میں منصفانہ الیکشن نہیں ہوئے تھے وہاں دھاندلی کی شکایات بہت زیادہ تھیں عوامی لیگ نے مخالفین کو شروع سے ہی دبالیا تھا بھٹو کے سخت ناقد تھے کہتے تھے کہ بدقسمتی سے بھٹونے قومی اسمبلی کے ڈھاکہ میں ہونے والے اجلاس میں جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں دینی شروع کر دیں اس کی ضد نے معاملات خراب کر دیئے 55 فیصد بنگالیوں کا حق تھا کہ اقتدار ان کے حوالے کیا جاتا ان کے خیال میں ڈھاکہ میں فوجی ایکشن سے بھٹو کسی بھی صورت بری الذمہ قرار نہیں دیئے جا سکتے کیونکہ بعد میں وہ یحییٰ کے دور میں ہی نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ بن گئے تھے اور اقوام متحدہ میں پولینڈ کی قرارداد کا مسودہ پھاڑ کر جذباتی تقریر کر کے نکل آئے اور یوں آبرومندانہ حل کا آخری موقعہ گنوا دیا اقبال تاجک کہاکرتے تھے کہ عالمی فورمز پر موچی دروازے کے جلسہ جیسی جذباتیت سے کام لینا غلط ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ایک جذباتی قوم ہیں اور بھٹو جذبات سے کھیلنے کے ماہر تھے بھٹو کے کریڈٹ پر ہمیں کوئی مثبت کارنامہ نظر نہیں آتادنیا بھر میں سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی مثال آج تک سامنے نہیں آسکی اور میرے خیال میں اس کو گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہونا چاہئے ملک میں انقلاب کے روایتی نعروں اورسیاست میں پیسے کے بڑھتے ہوئے عمل دخل سے سخت بیزا ر تھے پیسے کے عمل دخل کو کم کرنے کے حوالہ سے ان کااپنا ایک فارمولہ تھا کہ حلقوں کو اہمیت دی جائے تو انقلاب بپا کیا جاسکتا ہے‘ مثال کے طور پر قومی اسمبلی کا ایک حلقہ جس کے ووٹر5لاکھ ہیں اگر یہ لوگ ہر ماہ صرف ایک روپیہ جمع کریں تو ہر ماہ5لاکھ روپے جمع ہو سکتے ہیں اگر یہ تصور کریں کہ 5لاکھ میں سے صرف2لاکھ بھی ووٹ دینے نکلیں گے تو حلقے کو5 وارڈوں میں تقسیم کرنے سے ووٹ ڈالنے کے خواہشمند فی وارڈ40 ہزار ہونگے یہ لوگ کسی بھی ایک امیدوار کی سپورٹ کا فیصلہ کرلیں صرف اور صرف اس کے ذاتی کردار اور خوبیوں کو دیکھ کر پھر ہروارڈ ماہانہ چالیس ہزار روپے جمع کرسکتا ہے اور یوں اس وارڈ میں جلسہ کا اہتمام کیا جاسکتا ہے اگراس وارڈ میں تین ماہ میں تین جلسے بھی ہوں تو فی فرد صرف3روپے ماہانہ خرچ ہونگے اگر ابتداء میں 30سے40حلقے اس طرح سے خود کو تیار کرلیں تو دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ انقلاب آکر رہے گا تاہم یہ انقلاب تو نہ آسکا البتہ ایک بھرپور زندگی گذارنے کے بعد پروفیسر اقبال تاجک چوبیس جولائی کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ان کی کمی ایک عرصہ تک محسو س کی جاتی رہے گی۔