کشمیر انتخابات کے حسب توقع نتائج۔۔۔

آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کی 45جنرل نشستوں کے لئے انتخابات کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ 45میں سے 44نشستوں پر پولنگ کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی نے 25نشستیں حاصل کرلیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں گیارہ نشستیں آگئیں جبکہ آزاد کشمیر میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو صرف 6نشستیں مل سکیں۔اس بار آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھرپور مہم چلائی گئی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ کی نائب صدر مریم صفدر نے تو کشمیر میں ڈیرے ڈال دیئے تھے۔ وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزراء نے بھی متعدد انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج توقع کے مطابق رہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے انتخابات میں ہمیشہ وہی پارٹی کامیاب ہوتی ہے جس کی مرکز میں حکومت ہو۔ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں آزادانہ اور شفاف انتخابات اور تحریک انصاف کی کامیابی سے بھارت پر بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہوگا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے اور کشمیری عوام کی سیاسی رائے معلوم کرے۔ متحدہ اپوزیشن کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پہلے ہی اعلان کرچکے تھے کہ اگر کشمیر انتخابات میں عمران خان جیت گئے تو وہ نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔ حالانکہ ان کی اپنی جماعت الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے رہی تھی۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی کشمیر میں الیکشن چوری ہونے کا الزام لگایاہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ کشمیر انتخابات میں شکست کے بعد اپوزیشن کو اپنی سیاست اور قیادت پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ کشمیر الیکشن کے دوران بہت سی انہونیاں دیکھنے کو ملیں۔ ایک انتخابی حلقے سے مسلم لیگ ن کے امیدوار نے اعلان کیا کہ اگر ان کے ساتھ انصاف نہ کیاگیا تو وہ بھارتی وزیراعظم مودی کو مدد کے لئے پکاریں گے۔اس بیان پر ملک بھر میں شدید ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جب کہ پیپلز پارٹی کو کشمیر میں ان کی توقعات سے زیادہ نشستیں ملی ہیں جس کا کریڈٹ بہرحال بلاول بھٹو کو دیا جانا چاہئے۔ پاکستان میں جن حلقوں میں کشمیر انتخابات کے حوالے سے پولنگ ہوئی۔ وہاں ٹرن آؤٹ مایوس کن تھا۔ لاڑکانہ، بنوں اور دیر میں ایک اور دو ووٹروں کے لئے پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے تھے۔ وہاں ایک ووٹ بھی پول نہیں ہوا۔ ان ووٹروں سے پوسٹل بیلٹ پر ووٹ لئے جاسکتے تھے۔ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے باوجودکشمیر انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کی تبدیلی کے نعرے میں عوام کے لئے کشش اب بھی موجود ہے۔ اور لوگ روایتی اور موروثی سیاستدانوں کے فرسودہ انداز کو ناپسند کرتے ہیں۔ اپنی حکومت کے تین سالوں میں عمران خان نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح عوامی سیاست کی ہے جسے عوام میں پذیرائی ملی ہے۔ تاہم حکومت کے پاس اپنے انتخابی منشور پر پوری طرح عمل درآمد کرنے کیلئے دو سال کا مختصر عرصہ بچا ہے اس دوران اس نے بہت سے کام کرنے ہیں۔ کرپشن کا ابھی تک خاتمہ نہیں ہوسکا۔ منتخب نمائندوں اور عوام کے درمیان آج بھی فاصلے موجود ہیں۔ مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آرہا۔ بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اورلوڈ شیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ بین الاقوامی سطح کی سیاست میں عمران خان کو غیر معمولی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں مگر ملکی سطح پر انہیں عوام کو ریلیف پہنچانے کیلئے بہت کچھ کرنا ہے اور ان کی سیاسی بقاء کا دارومدار بہر حال عوام کا بھرپور اعتماد حاصل کرنے پر ہے۔  اب کچھ کرنے کا وقت ہے اور عملی اقدامات کے ذریعے ہی عوام کو اس امر پر قائل کرنا ہے کہ آنے والے انتخابات میں بھی وہ دوبارہ عمران خان کو ہی موقع دیں اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔