خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ نکاسیئ آب اور کوڑا کرکٹ کی صفائی سے متعلق تین بنیادی سہولیات فراہم کرنے والے ادارے ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز پشاور (WSSP)‘ نے یونین کونسل یکہ توت کے حدود میں ’محلہ قاضی نور‘ کی تزئین و آرائش کرتے ہوئے اِسے ’نمونہ گلی (Model Street)‘ قرار دیا ہے اور یہ پشاور کی پہلی نمونہ گلی ہے‘ جہاں دیواروں پر سفیدی‘ گلی کے دونوں اطراف زمین اور دیواروں پر گملے رکھے گئے ہیں‘ جن میں لگے رنگ برنگے پھولوں اور باریک بینی سے کی گئی صفائی دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ بھی پشاور ہے!؟ نمونہ گلی کے عنوان سے پشاور شہر کی خوبصورتی کا منصوبہ ’اقوام متحدہ‘ کے ذیلی ادارے ’یونیسیف (UNICEF)‘ کا خواب ہے‘ جس کی تعبیر کیلئے پشاور کا انتخاب اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن کسی گلی کوچے یا محلے کو ’نمونہ‘ بنانے کیلئے کئے گئے اقدامات اِس لئے پائیدار نہیں کہ اِن میں مقامی افراد (اہل محلہ و علاقہ) کی شمولیت (شراکت داری) نہیں۔ چونے کی سفیدی‘ جھاڑ پونج‘ درجنوں گملے آویزاں اور گاڑی کے استعمال شدہ ٹائروں میں رکھنے سے خوبصورت نہیں آئے گی جبکہ پشاور کے اپنے رنگ اور یہاں کا فن تعمیر غیرمحفوظ ہیں‘ جنہیہں پناہ چاہئے اور جو امان چاہتے ہیں! تعمیر و ترقی کا عمل ہو یا خوبصورتی اور سہولیات میں اضافہ‘ شہری ترقی کے عمل میں مقامی افراد کی شراکت سب سے زیادہ اہم اور بنیادی ضرورت ہوتی ہے اور اِسی شراکت داری سے کسی منصوبے کی پائیداری کا تعین بھی ہوتا ہے کیونکہ اجتماعی دانش اور شراکت داری سے اپنائیت اور اطمینان پھیلتا ہے۔ ڈبلیو ایس ایس پی کی حالیہ کوشش (نمونہ گلی) کا تعجب خیز پہلو یہ ہے کہ گملے رکھنے کے لئے گاڑیوں کے استعمال شدہ ٹائر استعمال کئے گئے ہیں جبکہ برسات (مون سون) کے موسم میں ہوئی کسی ایک بھی بارش کے بعد اِن ٹائروں میں جمع شدہ پانی ضائع کرنے اور اِن کے نیچے جمع ہونے والا کیچڑ صاف کرنے کے لئے الگ سے افرادی وسائل کی ضرورت ہوگی۔ مچھروں سے پھیلنے والی (ڈینگی و دیگر) وبائیں روکنے کیلئے اعلانات و انتظامات میں بطور خاص گملوں اور ربڑ کے ٹائر صاف رکھنے پر زور دیا جاتا ہے۔ڈبلیو ایس ایس پی کے فیصلہ سازوں کی کوشش اور خواہش ہے کہ یہ اپنی حدود(43 یونین کونسلوں) میں سے ہر یونین کونسل میں کم سے کم ایک نمونہ گلی بنائیں‘ جس سے تلقین اور تقلید حاصل کرتے ہوئے چراغ سے چراغ جلے گا اور شہری زندگی کی خوبیوں کو منور کرنے والی روشنی پھیلتی چلی جائے گی۔ توجہ طلب ہے کہ نمونہ گلی بنانے سے قبل صفائی کی صورتحال کم سے کم اِس درجے بہتر بنائی جائے کہ جس میں پشاور شہر میں ہر دن اکٹھا ہونے والا کوڑا کرکٹ تلف ہو سکے اور اہل پشاور (92میں سے 43 یونین کونسلوں) کے رہنے والوں کو آلودگیوں سے پاک پینے کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ سردست صورتحال یہ ہے کہ پشاور میں پینے کے پانی کا انحصار زیرزمین ذخیرے پر ہے جس کی 2 سطحیں ہیں۔ لیول ون اور لیول ٹو سے حاصل کردہ پانی کے نمونوں کی جانچ سے معلوم ہوا کہ اکثر علاقوں میں زیرزمین پانی کو نکاسیئ آب آلودہ کر رہا ہے اور اِسی آلودہ پانی کی ٹیوب ویلوں کے ذریعے ترسیل کی جاتی ہے جبکہ ترسیلی نظام ازسرنو بچھایا جا رہا ہے لیکن اگر پانی کا زیرزمین ذخیرہ ہی آلودہ ہو تو اِس کی فراہمی سونے یا چاندی کی پائپ لائن میں بھی کی جائے تو یہ آلودہ ہی رہے گا۔ ماضی میں پشاور شہر کے بالائی اور زیریں علاقوں میں سطح زمین سے بلند پانی ذخیرہ کرنے کی ٹینکیاں بنائی گئی تھیں‘ جن کے ساتھ اُنہیں بھرنے اور پانی کی تقسیم بعد از تطہیر کا نظام وضع تھا لیکن یہ ٹینکیاں ناقابل استعمال قرار دیدی گئیں اور وقت کے ساتھ خستہ حال (ناقابل استعمال) ہوتی چلی گئیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ اپنی حدود (43 یونین کونسلوں میں) پانی کی فراہمی تو کرتی ہے لیکن پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے خاطرخواہ اقدامات و انتظامات نہیں کئے جاتے اور نہ ہی حسب قواعد پانی ضائع کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے۔ قواعد کے تحت پانی ضائع کرنے والے کو 500 روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ جرمانہ کرے گا کون؟ شاید ہی پشاور کا کوئی ایک بھی ایسا علاقہ ہو جہاں پانی وہاں کے رہائشیوں کی ضروریات اور تسلی کے مطابق فراہم کیا جا رہا ہوں اور اِسی دوران وہاں پانی کا ضیاع بھی نہ ہوتا ہو۔ پانی کی فراہمی یقینا حکومتی ادارے کا کام ہے لیکن اگر پانی کو نعمت سمجھتے ہوئے اِس کا حسب ضرورت (کم سے کم) استعمال (استفادہ) کیا جائے تو پانی نہ صرف آج بلکہ مستقبل کی ضروریات کے لئے بھی کافی ہو سکتا ہے۔ فیصلہ سازوں کو نمونہ گلیاں بنانے سے زیادہ ’شہری زندگی سے متعلق شعور اور ذمہ داریاں‘ اُجاگر کرنے کیلئے مہمات چلانی چاہیئں تاکہ زیرزمین ذخائر سے صاف پانی حاصل کر کے ضائع کرنے سے لیکر پانی کو آلودہ کرنے جیسے محرکات کا تدارک کیا جا سکے۔پشاور کی حدود میں ڈبلیو ایس ایس پی‘ پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ‘ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور کنٹونمنٹ بورڈ کے علاوہ کئی حکومتی و نجی ادارے ازخود زیرزمین پانی کے ذخیرے سے استفادہ کرتے ہیں۔ اگر ہم صرف ڈبلیو ایس ایس پی ہی کی بات کریں تو یہ ادارہ ہر دن 300 لیٹر پانی فی صارف کے حساب سے 5 کروڑ (50.49 ملین) گیلن سے زیادہ پانی 76 ہزار سے زائد پانی کے صارفین کو فراہم کرتا ہے جبکہ عالمی معیار کے مطابق کسی شخص کی یومیہ پانی کی ضرورت 120 لیٹر ہوتی ہے لیکن پشاور میں پانی کے ہر صارف کو اُس کی اوسط یومیہ ضرورت کے دگنے سے بھی زیادہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے اور اِس قدر پانی کی فراہمی پر ہر ماہ اوسطاً 7 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں جبکہ پشاور کے زیرزمین پانی کا ذخیرہ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ ماضی میں پشاور کے اردگرد زرعی زمینیں زیرزمین پانی کے ذخیرے کو بھرا رکھتی تھیں لیکن زرعی زمینوں کے رہائشی علاقوں میں تبدیل ہونے کی وجہ سے پانی زمین میں جذب نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ٹیوب ویلوں کو ہر چند مہینوں بعد مزید گہرا کرنا پڑ رہا ہے۔ فیصلہ سازوں کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ پانی کی فراہمی جو مختلف اداروں نے اپنے ذمے لی ہوئی ہے اِسے اگر ’پشاور سٹی اتھارٹی‘ بنا کر ایک ہی محکمے کے سپرد کر دیا جائے تو اِس سے نہ صرف وسائل کی بچت ہوگی بلکہ اُس قیمتی جنس (زیرزمین پانی) کے محتاط استعمال بارے کوششیں بھی مربوط ہو سکیں گی۔