خیبرپختونخوا میں صنعتی شعبے کو پائیدار بنیادوں پر ترقی دینے کیلئے نئی صنعتی پالیسی کے تحت آئندہ دس سالوں میں دس اکنامک زونز،19 سمال انڈسٹریل اسٹیٹس قائم کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ اگلے پانچ سالوں میں کم سے کم دو مزید اسپیشل اکنامک زونز قائم کئے جائیں گے۔ ایبٹ آباد، ڈی آئی خان، بنوں، درہ آدم خیل، شاہ کس اور مردان سمال انڈسٹریل اسٹیٹس کواسپیشل اکنامک زونز کا درجہ دیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ کی زیر صدارت نئی صنعتی پالیسی سے متعلق اجلاس میں نئی صنعتی پالیسی پر عمل درآمد کیلئے ایکشن پلان کی منظوری دی گئی۔ صنعتی پالیسی پر عمل درآمد اور نگرانی کیلئے 15 رکنی کمیٹی دینے کا فیصلہ کیاگیا۔ صنعتی پالیسی کے تحت صوبے کی بیمار اور بند صنعتوں کی بحالی کیلئے ٹھوس اقدامات کے علاوہ صوبے کی صنعتوں کو گیس اور بجلی کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ صوبے میں صنعتی ترقی کیلئے جو 10اکنامک زونز قائم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے ان میں چترال، غازی، درابن، سوات،بونیر اور ضم اضلاع شامل ہیں۔صوبے کے مختلف اضلاع میں قدرتی وسائل کی پیداوار کے حساب سے اکنامک زونز کی ترقی بھی صنعتی پالیسی کا ایک اہم جز ہے۔ صنعتی یونٹس تک سڑکوں اور دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر بھی صنعتی پالیسی کا حصہ ہیں۔ پالیسی کے تحت چھوٹی اور درمیانی درجے کی موجودہ اور نئی صنعتوں کی مالی معاونت کیلئے بلاسود اورآسان قرضے فراہم کئے جائیں گے۔ صوبے میں کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دینے کیلئے درہ آدم خیل میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹریننگ سنٹر بھی قائم کیا جائے گا۔ تاکہ نوجوانوں کو بین الاقوامی معیار کی تربیت دی جاسکے۔نئی صنعتی پالیسی میں صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں اکنامک زونز اورسمال انڈسٹریل اسٹیٹس کے ذریعے لوگوں کو روزگار کی فراہمی کو ترجیحات میں شامل کیاگیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع جنگلات اور معدنی وسائل سے مالامال ہیں مگر ان سے آج تک مناسب استفادہ کرکے علاقے کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے پہاڑ معدنی ذخائر سے مالا مال ہیں یہاں قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے علاوہ کرومائیٹ، اینٹی منی، جپسم، تانبے اور دیگر قیمتی دھاتوں کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ دستیاب خام مال کی بنیاد پر صنعتوں کے قیام سے قبائلی اضلاع میں ترقی کا نیا دور شروع ہوگا۔ باجوڑ، مہمند اور خیبر میں دنیا کا بہترین سنگ مرمر پایاجاتا ہے مگرقدیم اور روایتی انداز میں بلاسٹنگ کے ذریعے سنگ مرمر نکالنے کی وجہ سے قیمتی ذخائر ضائع ہورہے ہیں۔ معدنی ذخائر کو ضائع کئے بغیر نکالنے کے لئے جدید مشینری اور ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے۔ جہاں صنعتی بستیاں قائم ہوں گی وہاں تک بھاری مشینری پہنچانے کے لئے کشادہ سڑکیں تعمیر کی جائیں گی جس سے دور افتادہ علاقوں کو آمدورفت کی سہولیات میسر آئیں گی۔ کہتے ہیں کہ ترقی ہموار سڑکوں پر چل کر آتی ہے۔ قبائلی اضلاع کی پسماندگی کی ایک وجہ رسل و رسائل کے ذرائع کی کمی ہے۔درہ آدم خیل میں کاٹیج انڈسٹری کے لئے افرادی قوت کو ہنر سے آراستہ کرنے کے لئے جدید تربیتی مرکز کے قیام سے قبائلی نوجوانوں کو مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق ہنر سیکھنے کے مواقع ملیں گے۔ صوبائی حکومت اگر درہ آدم خیل کی اسلحہ انڈسٹری کو بھی اپنی سرپرستی میں فروغ دے اور انڈسٹریل اسٹیٹس میں آرمز اینڈ ایمونیشن انڈسٹری کو بھی کوٹہ مہیا کرے تو ہزاروں ہنرمندوں کو روزگار مل سکتا ہے۔ توقع ہے کہ صوبائی حکومت نئی صنعتی پالیسی پر رواں مالی سال سے ہی عمل درآمد کا آغاز کرے گی تاکہ اس کے ثمرات جلد سے جلد اس صوبے اور قبائلی علاقوں کے عوام تک پہنچ سکیں۔