تشخیص وعلاج۔۔۔۔۔

خیبرپختونخوا کے تدریسی (ٹیچنگ) ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات میں اضافے اور خدمات کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے جو اصلاحات متعارف کروائی گئیں‘ اُن میں سرفہرست قانون سازی تھی جسے ’میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیویشن ریفارمز ایکٹ 2015ء (ایم ٹی آئی آر اے)‘ کہا جاتا ہے اور اِسی قانون کے تحت بننے والے ضمنی قواعد کی روشنی میں سرکاری ہسپتالوں سے وابستہ معالجین کو اِس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ اپنے یومیہ ملازمتی دورانئے (ڈیوٹی آورز) کے بعد نجی علاج گاہوں (کلینکس) میں مشاورتی و دیگر خدمات فراہم کرنے کی بجائے سرکاری ہسپتالوں ہی میں یہ خدمات فراہم کیا کریں اور اِس مقصد کیلئے انہیں سرکاری ہسپتالوں کے جملہ وسائل بشمول افرادی قوت سے استفادہ کرنے کی بھی اجازت دی گئی۔ ذہن نشین رہے کہ مذکورہ قانون (ایم ٹی آئی آر اے) اور اِس کے تحت بنائے گئے قواعد و ضوابط لاگو کرنے سے قبل تدریسی ہسپتالوں سے وابستہ مشاورتی ڈاکٹروں (کنسلٹنٹس‘ ڈاکٹرز‘ نرسیز‘ پیرامیڈیکس اور دیگر معاون  طبی عملہ) صوبائی حکومت کا ملازم ہوا کرتا تھا جبکہ مذکورہ قانون لاگو ہونے کے بعد تدریسی ہسپتالوں کے سبھی اہلکاروں کی ملازمتیں متعلقہ ہسپتالوں کے سپرد کر دی گئیں‘ جنہیں مالی و انتظامی فیصلوں میں خودمختار بھی بنا دیا گیا کہ وہ اپنی ضروریات کا تعین خود کریں اور اپنی ضروریات کے مطابق سہولیات و خدمات میں اضافہ کریں لیکن تدریسی ہسپتال سے وابستہ طبی و معاون طبی عملے کی اکثریت اِن اصلاحات (قانونی بندوبست) سے مطمئن نہیں اور چاہتی ہے کہ اُنہیں دیگر محکموں کے سرکاری ملازمین کی طرح ملازمتی حیثیت‘ تنخواہوں اور دوران ملازمت و بعد ملازمت مراعات بحال کی جائیں۔ جیسا کہ مذکورہ اصلاحاتی قانون کے تحت تدریسی علاج گاہوں سے وابستہ کنسلٹنٹ اِس بات کے پابند بنائے گئے ہیں کہ متعلقہ ہسپتالوں کے اندر اپنی خدمات ’نجی طور پر‘ فراہم کریں گے جسے اصطلاحاً ’انسٹی ٹیویشن بیسڈ پریکٹس (IBP)‘ کہا گیا لیکن ڈاکٹروں کی اکثریت نے شام  کے اوقات میں نجی کلینکس پر اپنی پیشہ ورانہ خدمات کی فراہمی جاری رکھی اور اُس قانون کا سہارا لیا جاتا ہے جس کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم اپنے ملازمتی اوقات کے دورانئے کے بعد کہیں بھی ملازمت کر سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے دوسرے دور حکومت (اگست 2018ء) سے صورتحال میں کچھ بہتری آئی ہے اور تدریسی ہسپتالوں کے حوالے سے 2015ء کے قانون و قواعد پر عمل درآمد ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حال ہی میں بھرتی کئے گئے کنسلٹنٹ ڈاکٹروں کو شروع دن سے ہسپتال ہی میں نجی پریکٹس (اپنی جزوقتی خدمات) فراہم کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ حیرت انگیز ہے کہ تحریک انصاف کے پہلے دور حکومت (2013ء سے 2018ء) کے دوران قانون بنایا گیا لیکن اِس پر عمل درآمد دوسرے دور حکومت میں ہو رہا ہے۔قابل ذکر ہے کہ تدریسی ہسپتالوں سے متعلق اصلاحاتی قانون سال 2015ء میں مرحلہ وار نافذ کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں پشاور اور ایبٹ آباد کے 3 ہسپتالوں کا انتخاب کیا گیا تاکہ طبی و معاون طبی عملے کا ردعمل اور اِس قانون میں موجود خامیوں کی نشاندہی ہو سکے اور اِس میں ترامیم لائی جا سکیں۔ حکمت عملی (سوچ اور کوشش) یہ تھی کہ تدریسی (بڑے) ہسپتالوں کی طرح مضافاتی علاقوں میں علاج  کے چھوٹے مراکز میں سرکاری ملازمین کی مستقل ملازمتی حیثیت کو مشروط معاہدوں (کنٹریکٹ) میں تبدیل کیا جائے تاکہ قانون اور قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف فوری محکمانہ کاروائی عمل میں لائی جا سکے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مذکورہ اصلاحات وضع کرنے والے اِس نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہے کہ وہ کامیاب ہوئے ہیں تو کس حد تک اور اگر ناکام ہوئے ہیں تو اِس ناکامی کی حد کیا ہے! چند ایک ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں مذکورہ اصلاحاتی قانون کا خاطرخواہ احترام نہ کرنے والوں کو اُن کی ملازمتوں سے برطرف کیا گیا اور کئی ایک نے ازخود سرکاری ملازمتیں چھوڑ دیں لیکن قانون لاگو ہونے کے بعد اِس پر عمل درآمد مرحلہ وار نہیں ہونا چاہئے بلکہ  سب سے ایک جیسی اور حسب قانون و ضرورت حکمت عملی سے نمٹا جانا ضروری ہے۔