برسات (مون سون سیزن) جاری ہے اُور اِس دوران ہونے والی بارشوں سے لطف اندوز ہونے کی بجائے شہری و دیہی علاقوں کے رہنے والوں کا جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اُور وہ اپنی جان و مال کے تحفظ کو لے کر غیریقینی کی کیفیت میں مبتلا بقول غالبؔ فکرمند ہیں کہ ”کس کے گھر جائے گا سیلاب ِبلا میرے بعد!“ تصور کریں کہ ایک طرف مون سون بارش کا پانی ہے جو ٹھاٹھیں مارتا ہوا شہری زندگی کو روندتا چلا جا رہا ہے تو دوسری طرف اندرون سندھ کے ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پانی کی کمی کے باعث رواں سال چاول کی فصل 2 ماہ تاخیر سے کاشت ہونے کے علاؤہ اِس سال وہاں کم کاشت اُور پانی کی کمی کے باعث کم پیداوار ہونے کی توقع ہے۔ ذہن نشین رہے کہ زرعی ملک ہونے کا دعویٰ رکھتے ہوئے پاکستان نے مالی سال 2020-21ء کے 11 مہینوں کے دوران 7.550 ارب ڈالر کی غذائی اجناس درآمد کیں جو مجموعی طور پر ہونے والی درآمدات کا قریب 54 فیصد حصہ ہے جبکہ مالی سال 2020-21ء میں پاکستان کی کل درآمدات 50 ارب ڈالر سے زیادہ رہیں جو اِس سے قبل مالی سال 2019-20ء میں قریب 41 ارب ڈالر تھیں۔ زراعت کے لئے پانی اہم ضرورت ہے اُور اِس سلسلے میں بارش سے حاصل ہونے والا پانی خاص اہمیت رکھتا ہے جسے بڑی مقدار میں ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ پانی ضائع ہو جاتا ہے‘ یوں بارشیں اگر برساتی نالوں اور دیگر آبی گزرگاہوں میں طغیانی (فلیش فلڈز) کا باعث نہ بھی بنیں لیکن اِن سے حاصل ہونے والا پانی ضائع ہونے کی وجہ سے ہر سال بالخصوص برسات کے موسم میں نقصان ہوتا ہے۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ستائیس اُور اٹھائیس جولائی کی درمیانی شب ہوئی 103 ملی میٹر بارش سے پیدا ہونے والی ’سیلابی صورتحال‘ سے ”سیکٹر E-11“ سب سے زیادہ متاثر ہوا جس کی وجہ وہاں برساتی نالے کے راستے پر درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں قائم تجاوزات بتائی جا رہی ہیں۔۔ توجہ طلب ہے کہ اٹھائیس جولائی کی الصبح سے آنے والا بارش کا پانی سیلاب کی صورت اسلام آباد کے مختلف علاقوں (سیکٹرز) میں گردش کرتا رہا اور سب سے زیادہ متاثر ’ای الیون‘ ہوا جہاں شہری علاقے میں آئے سیلاب سے 2 افراد کی موت بھی ہوئی! دنیا کے لئے یہ بات تعجب خیز ہے کہ اِسلام آباد کسی دریا یا سمندر کے کنارے آباد نہیں جہاں بار بار آنے والی طغیانی کا منطقی جواز ہو اور یہ مقامی افراد کے لئے درد سر بنا ہوا ہو۔ اسلام آباد کے جن سیکٹرز (ای الیون اُور ڈی بارہ) میں تجاوزات نے برساتی نالے کو ابلنے اور بپھرنے پر مجبور کیا‘ اُس کے اصل ذمہ دار وہی ہیں جنہوں نے برساتی نالے کی معلوم حدود کو فروخت کرنے کی اجازت دی اور وہاں کثیرالمنزلہ رہائشی و تجارتی مراکز تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ ’اِی الیون‘ سیکٹر کے جس حصے سے سیلانی صورتحال پیدا ہوئی وہاں نالے پر پل کی تعمیر اور اہل علاقہ کا نالے میں کوڑا کرکٹ پھینکنے جیسی دو وجوہات کی بنا پر بارش کا پانی اپنا راستہ بناتے ہوئے گلی کوچوں میں کھڑی (پارک ہوئی) تین گاڑیوں اور متعدد موٹرسائیکلوں کو بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ مجموعی طور پر سیلاب سے اسلام آباد کے 6 سیکٹرز (ای الیون‘ ڈی بارہ‘ ایف سکس‘ ایف سیون‘ جی سکس اور جی سیون) متاثر ہوئے۔بارشیں صرف اسلام آباد ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کیلئے بھی دردسر بنی ہوئی ہیں۔