خیبرپختونخوا کے سب سے بڑی علاج گاہ ”لیڈی ریڈنگ ہسپتال“ 1927ء میں قائم ہوئی اُور اگر اِس کی ویب سائٹ (LRH.Edu.PK) پر موجود اعدادوشمار کو تازہ ترین تسلیم کر لیا جائے تو اِس ہسپتال کے 33 شعبہ جات سے ساڑھے چار ہزار طبی و معاون طبی اُور دیگر عملہ وابستہ ہے جن میں 1691 معالجین (ڈاکٹرز) شامل ہیں جبکہ ہسپتال میں بستروں کی تعداد 1691 ہے اُور اِن میں خصوصی حالات و ضرورت کی وجہ سے کورونا وبا کے مریضوں کے لئے 450 بستروں پر مشتمل سہولیات کو مختص کیا گیا ہے جہاں صرف کورونا مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ باقی ماندہ ہسپتال میں فراہم کی جانے والی علاج معالجے کی سہولیات اُور مریضوں کے دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہسپتال میں بستروں کی تعداد میں کم سے کم دوگنا اضافہ (تین ہزار سے زیادہ) ہونا چاہئے۔ ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے بذریعہ اشتہار (تیس جولائی) ایک کروڑ بیس لاکھ روپے سے زائد کی پیشکشیں طلب کی گئی ہیں جو لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی چاردیواری کے اندر پہلے سے موجود سڑک کی تعمیر سے متعلق ہیں جبکہ کئی مقامات پر معمولی ’پیچ ورک‘ کی ضرورت ہے‘۔ مذکورہ سڑک کی تعمیر اگرچہ ترقیاتی کام ہے لیکن ہسپتال کی چاردیواری کے اندر یہ غیرترقیاتی زمرے میں شمار ہوگا کیونکہ علاج گاہ کا ترقیاتی کام وہاں علاج معالجے کی سہولیات میں اضافے کی صورت تصور ہوگا۔ فی الوقت ’خود مختار انتظامیہ‘ یہ چاہتی ہے کہ ہسپتال کی چاردیواری کے اندر موجودہ سڑک جس پر کھڈے اُور ٹوٹ پھوٹ نمایاں ہو چکے ہیں اُور جس پر یومیہ اوسطاً 200 مریضوں کو لایا لیجایا جاتا ہے کی نئے سرے سے تعمیر ہو کیونکہ اسٹریچر پر لیٹے مریض کی آدھی جان کھڈوں سے گزرتے ہوئے (اچھلتے ڈولتے اسٹریچرز) کی وجہ سے چلی جاتی ہے لیکن اگر پورے ہسپتال کی سڑک موٹروے جیسی ہموار بنانے کی بجائے مریضوں کو ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ تک پہیوں والے بستروں (اسٹرچر) کی مرمت کی جائے اُور پوری سڑک کی بجائے پختہ راہداریاں بنائی جائیں تو اِس سے مالی وسائل کی بچت‘ مسئلے کا فوری حل اُور بعدازاں راہداریوں کی ضرورت پڑنے پر مرمت بھی آسان رہے گی۔ ہسپتال انتظامیہ اگر غور کرے تو معلوم ہوگا بہت سارے اسٹرچرز کے پہیے خراب ہیں جنہیں سپرنگ (شاک آبزور) اُور ہوا والے پہیوں سے سہارا دے کر مریضوں پر ’کم خرچ‘ میں بھی مہربانی کی جا سکتی ہے۔لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا قیام عطیات سے ہوا‘ جس میں حکومتی مالی وسائل سے زیادہ پشاور کے مقامی اُور پشاور کی محبت میں اسیر غیرمقامی شخصیات کی قربانیاں‘ توجہات و توفیقات کا عمل دخل ہے‘توجہ طلب ہے کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا قیام (پاکستان سے قبل) ہوا جس کی تاریخ خاصی دلچسپ ہے کہ ایک برطانوی فوج کے اعلیٰ عہدیدار ’لارڈ ریڈنگ‘ جو کہ یہودی تھے اُور جب اُن کی پشاور کی تعیناتی ہوئی تو اِن کی اہلیہ جو بعدازاں ’لیڈی ریڈنگ‘ کے نام سے معروف ہوئیں نے قلعہ بالاحصار کی سیر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا‘ جس کی فوری تعمیل ہوئی۔ گھوڑے پر سوار لیڈی ریڈنگ بلندی سے پشاور کے باغات اُور سرسبزی و ہریالی کے نظاروں سے لطف اندوز ہو رہی تھیں کہ اچانک اُن کا گھوڑا بدکا اُور وہ زین سے زمین پر آ گریں جس سے اُنہیں خاصی چوٹیں آئیں لیکن چونکہ اُس وقت قرب و جوار میں علاج معالجے کے لئے معیاری انتظام موجود نہیں تھا کہ جہاں ’لیڈی ریڈنگ‘ کی مرہم پٹی سے زیادہ علاج ہو سکتا تو اُنہیں قریبی ہسپتال سے معائنے کے بعد ’رائل آرٹلری ہسپتال (موجودہ کمبائنڈ ملٹری ہسپتال ’سی ایم ایچ‘) لیجایا گیا جہاں اُن کا علاج ممکن ہوا۔ اِس حادثے کے بعد ’لیڈی ریڈنگ‘ نے پشاور شہر کی فصیل کے سامنے اُور قلعہ بالاحصار سے متصل موجود ہسپتال قائم کرنے کا سوچا۔ اُن کے شوہر ’لارڈ ریڈنگ‘ جب 1926ء میں برطانوی فوجی ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو وہ اِس ’کار ِخیر‘ کے لئے دہلی سے بطور خاص پشاور تشریف لائیں اُور اُنہوں نے اُس وقت کے ایجرٹن (agerton) ہسپتال کی جگہ علاج معالجے کی بہتر و زیادہ سہولیات کے لئے ہسپتال بنانے کے لئے 52 ہزار روپے خود عطیہ دیا جبکہ ہسپتال بنانے کے لئے چندہ مہم بھی چلائی جس میں پشاور شہر کے کئی نامور افراد نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا چونکہ ’بڑے ہسپتال‘ کے قیام کا تصور ’لیڈی ریڈنگ‘ نے پیش کیا تھا اُور غیرمقامی ہونے کے باوجود بھی اُنہوں نے ایک ایسی خطیر رقم عطیہ کی تھی‘ جو اُس وقت کے لحاظ سے غیرمعمولی تھی اِس لئے ہسپتال کا نام اُنہی کے نام نامی سے منسوب کر دیا گیا اُور آج بھی ہے۔ قیام کے فوراً بعد لیڈی ریڈنگ ہسپتال کو پشاور ڈسٹرکٹ (کوارٹر) ہسپتال (DHQ) کا درجہ دیا گیا جبکہ اِس میں بستروں کی تعداد 150تھی۔ 1930ء میں بستروں کی تعداد بڑھا کر 200 دی۔ 1955ء میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کو تدریسی علاج گاہ کا درجہ دیتے ہوئے میڈیکل‘ سرجیکل‘ ناک کان گلہ‘ بصارت اُور ٹی بی کے شعبہ جات کو خیبر میڈیکل کالج سے منسلک کر دیا گیا اُور تب سے آج تک ’لیڈی ریڈنگ‘ نے ایک ایسے مرکزی ہسپتال کا کردار ادا کیا ہے‘ جہاں صرف ضلع پشاور ہی نہیں بلکہ قبائلی علاقوں اُور پورے دیگر صوبوں سے بھی مریضوں کو لایا جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ علاج معالجے کی سہولیات میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا۔ فیصلہ سازوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ اُس حقیقی مقصد (علاج معالجے) کو ذہن میں رکھیں‘ جس میں ضلع پشاور کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے اضافہ نہیں ہو رہا۔