1980ء کی دہائی کے اواخرتک سرکاری سکولوں کے نصاب میں فنی تعلیم کے نام سے ایک کتاب شامل ہوا کرتی تھی جو جماعت ششم‘ہفتم اور ہشتم میں پڑھائی جاتی تھی تاہم اس دور میں بہت کم بچے فنی تعلیم حاصل کیاکرتے تھے کیونکہ یہ اختیاری مضامین کے زمرے میں شامل تھا‘بچے اوروالدین دونوں ہی اس جانب کم ہی توجہ دیاکرتے تھے خود حکومت کی سنجیدگی کایہ عالم تھاکہ فنی تعلیم کو اختیاری مضمون قراردے کر گویا خود ہی اس کاگلہ گھونٹنے کااہتمام کیاہواتھا تقسیم سے قبل برصغیر کے بعض اردواورانگلش میڈیم سرکاری سکولوں میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم بھی دی جاتی تھی یوں ان سکولوں سے جب بچے فارغ ہوجاتے تھے تو ان کے ایک ہاتھ میں تعلیمی سند اوردوسرے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی ہنر ہوا کرتاتھا اس کے بعد بچے کی مرضی ہوتی تھی کہ مزید تعلیم حاصل کرے یا اسی ہنر کو روزی کمانے کاذریعہ بنائے اس کی ایک بہت بڑی مثال راقم کے سامنے پروفیسر محمد اقبال تاجک کی تھی جو گذشتہ دنوں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے اقبال تاجک مرحوم نے ممبئی کے اردومیڈیم سکول میں عصری تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ترکھان کا پورا کام بھی سیکھا اورجب ممبئی ہی کے انگلش میڈیم سکول میں داخل ہوئے وہاں ان کو درزی کاکام بھی سکھایاگیا مرحوم نے مزید تعلیم حاصل کی پروفیسر بنے اور پھر پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائرہوئے تاہم بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہونگے کے ان کے گھر میں آخر تک لکڑی کے کام کے لئے پوری کی پوری کٹ یعنی ترکھان کے زیر ا ستعمال تمام ضروری اوزارکاسیٹ موجودر ہا وہ گھر کے لکڑی کے تمام چھوٹے موٹے کام اپنے ہاتھ سے کرتے اسی طرح گھر کے پردے اور بیڈ شیٹ بھی آخر تک خود ہی سیتے رہے کیونکہ انہوں نے لڑکپن میں ہی دونوں ہنر سیکھ لئے تھے انہوں نے پھر صوبائی حکومتوں کو باربارفنی تعلیم کے حوالہ سے سکولوں کی سطح پر تربیتی نشستیں شروع کرنے کی سفارشات پیش کیں مگر کسی نے بھی کان دھرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی قیام پاکستان کے بعد رفتہ رفتہ تمام شعبوں میں تنزلی کی ایک لہر چلی شعبہ تعلیم بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا ساتھ ہی سماجی ناہمواریوں نے بھی اپنا کردارادا کرناشروع کیاچنانچہ پیشہ ور لوگوں کو حقارت کی نظرسے دیکھنے کی روایت جب پختہ تر ہوتی چلی گئی تو لوگوں نے ہنر سیکھنا ہی چھوڑ دیا اس کی زد میں پختون معاشرہ سب سے زیادہ آیا چنانچہ آج بھی ملکی سکلڈ لیبر میں پختونوں کی شرح نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتی ہے اس کی بڑی وجہ فنی تعلیم سے راہ فرار اختیار کرناثابت ہوئی حالانکہ چین نے سکولوں کی سطح پر فنی تعلیم کے فروغ پر توجہ دے کر ماضی میں اس کے ثمرات سمیٹے چین میں سکول جانے والے تمام بچوں پر لازمی قراردیاگیاتھاکہ وہ عصری تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم بھی حاصل کریں گے چنانچہ سکولوں میں ورکشاپس ہوا کرتی تھیں جہاں پر مختلف قسم کے کام کئے جاتے تھے جوبچے تربیت مکمل کرلیتے تھے وہ پھرانہی ورکشاپوں میں یا تو گاڑیوں کاکام کرتے درزی یا پھرترکھا ن کا کام کرکے خود سکول کے لئے آمدن کا ذریعہ بھی بناکرتے تھے بعدازاں اس کی جدید شکل جدید فنی تعلیمی اداروں کے جداگانہ قیام کی صورت میں سامنے آئی ایک ہم تھے کہ اپنے اس عظیم دوست کی کامیابی کے راز کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہم نے تعلیم کونوکری کے حصو ل کاذریعہ بناکر رکھ دیا بعدازاں جب ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس قائم ہوئے تو اس میں بھی بچے ہنر سیکھنے کے لئے کم اور پروفیشنل ڈپلومہ کے حصول کی غرض سے زیادہ داخل ہواکرتے تھے تاکہ پھراس ڈپلومہ کے بل بوتے پر یا تو کوئی سرکاری نوکری حاصل کی جاسکے یا پھر بیرون ملک جانے کے لئے ویزا لیاجاسکے یوں یہ ووکیشنل تربیتی ادارے بھی اپنی اہمیت کھوتے چلے گئے اس وقت جبکہ سی پیک کے تحت مختلف منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے مواصلاتی منصوبے تقریباً مکمل ہونے والے ہیں جس کے بعد صنعتی زونوں پر کام تیز کیاجانے والاہے خودہمارے صوبہ میں اب تک رشکئی سپیشل اکنامک زون، جلوزئی اکنامک زون، نوشہرہ اکنامک زون کا توسیعی پراجیکٹ، مہمند اکنامک زون اور ڈی آئی خان اکنامک زون کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے اسی طرح صوبے میں صنعتی شعبے کو پائیدار بنیادوں پر ترقی دینے کیلئے نئی صنعتی پالیسی 2020 ء کے تحت آئندہ دس سالوں میں دس اکنامک زونز،19 سمال انڈسٹریل اسٹیٹس جبکہ اگلے پانچ سالوں میں کم سے کم دو مزید سپیشل اکنامک زونز قائم کئے جائیں گے اس کے ساتھ ساتھ ایبٹ آباد، ڈی آئی خان، بنوں، درہ آدم خیل، شاہ کس اور مردان سمال انڈسٹریل سٹیٹس کوسپیشل اکنامک زونز کا درجہ دیا جائے گاگویا آنے والے دنوں میں اب جدید تربیت فافتہ ہنر مند نوجوانوں کی اشد ضرورت ہوگی یہی وقت ہے کہ فنی تعلیم کے بھولے ہو سبق کو پھر سے یاد کروانے کے لئے ہنگامی بنیاد وں پر سنجیدہ اور دکھائی دینے والے اقدامات کاسلسلہ شروع کیاجائے اس سلسلہ میں ایک اچھی خبر یہ سامنے آئی ہے کہ صوبے میں کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دینے کیلئے درہ آدم خیل میں سٹیٹ آف دی آرٹ ٹریننگ سنٹر قائم کیا جائے گا تاکہ نوجوانوں کو بین الاقوامی معیار کی تربیت دی جاسکے اس قسم کے تربیتی مراکز صوبہ کے دیگر حصوں میں بھی قائم کئے جانے کی ضرورت ہے ظاہرہے حکومت تمام لوگوں کو سرکاری نوکریاں نہیں دلاسکتی جس کے بعد روایتی ڈگریوں سے کہیں زیادہ پروفیشنل ڈگریوں اور ڈپلوموں پر توجہ دی جانی چاہئے سی پیک کے تحت جب اگلے چند سال میں صنعتی زونوں میں کارخانوں کے قیام کاسلسلہ شروع ہوگا تو اس کے لئے فوری طورپر تربیت یافتہ لیبر کی ضرورت ہوگی جس کے معاملہ میں ہما را صوبہ کافی پیچھے ہے ابھی سے نوجوانوں کو تربیت دے کر آنے والا حالات سے نبردآزماہونے کے لئے تیار کیاجاسکتاہے وگرنہ ہمارے صوبہ کے نوجوان اسی طرح یا تو بیروزگار رہ کر ملک دشمن اور سماج دشمن عناصر کے ہتھے چڑھتے رہیں یا پھر دوسرے صوبوں میں جاکر چوکیداری،سٹہ فروشی یا پھر جوتے پالش کرنے کے کام ہی کرتے رہیں گے۔