اِی کامرس: مناسب حکمت عملی۔۔۔۔

پاکستان میں الیکٹرانک ذرائع اور وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ’خرید و فروخت‘ کی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے ’فیس بک (Facebook)‘ نے نئی سہولیات متعارف کرائی ہیں‘ جنہیں ’اِی کامرس‘ کے حوالے سے ”نئے دور کا آغاز“ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ امریکی کمپنی ’فیس بک‘ کا قیام سال 2004ء کے دوران سترہ برس قبل عمل میں آیا تھا جس کی سال 2020ء میں کل آمدنی 85 ارب ڈالر سے زیادہ جبکہ اکتیس مارچ 2021ء تک اِس کے ملازمین کی تعداد 60 ہزار سے زیادہ تھی۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ سوشل میڈیا کی دنیا میں 3 سرفہرست کمپنیوں فیس بک‘ یوٹیوب اور واٹس ایپ کے صارفین کی تعداد دو دو ارب سے زیادہ ہے۔ اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی صارف فیس بک یا مذکورہ دیگر 2 ایپلی کیشنز میں سے کسی ایک کا بھی استعمال کرتا ہے تو اُس کا پیغام (مصنوعات کی تفصیلات) ’آن کی آن‘ 2 ارب صارفین تک پہنچ جائیں گی۔ پاکستان کیلئے ’فیس بک‘ نے خصوصی طور پر ’صارف (کسٹمر) سے صارف (کسٹمر) تک سہولت (پلیٹ فارم)‘ مہیا کر دیا ہے جس کا استعمال کر کے پرانے اور نئے کاروباری اِدارے اپنی مصنوعات یا خدمات پیش کر سکیں گے۔ کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کے دباؤ سے نکلنے کی بہتر صورت یہی ہے کہ ’آن لائن کاروباری وسائل اور مواقعوں‘ سے استفادہ کیا جائے اور کاروباری اداروں کو ’اِی کامرس‘ کی جانب راغب ہونے کی ترغیب دلائی جائے کیونکہ کسی سوشل میڈیا کمپنی کی جانب سے کسی پیشکش کرنا کافی نہیں لیکن جب تک کاروباری ادارے اور صارفین اُن خدمات کا استفادہ کرنے میں دلچسپی نہیں لیں گے اُس وقت تک بات نہیں بنے گی کیونکہ ’اِی کامرس‘ کی تالی بجنے کیلئے بھی دونوں ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
حالیہ چند ماہ کے دوران ’ایمازون (Amazon)‘ اور ’فیس بک‘ نامی بڑے اداروں کا پاکستانی مارکیٹ کی جانب متوجہ ہونا غیرمعمولی پیشرفت ہے۔ فیس بک نے ’مارکیٹ پلیس (Market Place)‘ کے نام سے اپنی ’اِی کامرس خدمات‘ کا اعلان 2016ء میں کیا تھا جس سے صرف وہ پاکستانی ادارے فائدہ اٹھا رہے تھے جن کے بیرون ملک دفاتر موجود تھے لیکن نئی پیشرفت سے صرف پاکستان میں موجود ادارے بھی اپنی مصنوعات مقامی اور عالمی منڈیوں تک پہنچا سکیں گے۔ اِی کامرس کے کاروباری عمل میں صارفین کا کاروباری اداروں اور کاروباری اداروں کا صارفین پر اعتماد ہونا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں آن لائن کاروبار کرنے والے اداروں جن میں ’دراز Daraz‘ سرفہرست ہے کے ذریعے ہونے والی لین دین میں جعل سازی اور دھوکہ دہی جیسی بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں اور اِس سے صارفین کو محفوظ رکھنے کیلئے ’دراز‘ کی جانب سے صارفین کے نقصانات کا فوری ازالہ کرنے کیلئے مختلف شہروں میں دفاتر بھی قائم کئے گئے ہیں لیکن اُس ’اِی کامرس‘ کا کیا فائدہ جس میں اعتماد کا فقدان ہو۔ فیس بک کے مارکیٹ پلیس فیچر تک پاکستانی صارفین کو قبل ازیں رسائی حاصل نہیں تھی اور اب جبکہ فیس بک نے یہ سہولت مہیا کر دی ہے تو بڑے کاروباری اداروں کے مقابلے چھوٹے کاروباری ادارے اِس سے نسبتاً زیادہ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں بالخصوص وہ ہنرمند خواتین جو کھانا پکانے‘ دستکاری یا درس و تدریس جیسی خدمات فراہم کر سکتی ہیں‘ اُن کیلئے ’مارکیٹ پلیس‘ انقلاب ثابت ہو سکتا ہے کہ اِس کے ذریعے وہ نہ صرف عزیزواقارب بلکہ ایک جیسی اشیا یا خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے ہمراہ فہرست ہو سکیں گی۔فیس بک (صدر دفتر کیلیفورنیا‘ امریکہ) کی جانب سے پاکستان کی وزارت تجارت کے نام ایک مکتوب میں ’مارکیٹ پلیس‘ نامی پلیٹ فارم کو پاکستان کیلئے وا کرنے بارے مطلع کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فیس بک پاکستان میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے اور سوشل میڈیا کے ذریعے کورونا وبا کے معاشی اثرات کم کرنا چاہتا ہے۔ اِن نئی اِی کامرس سہولیات سے نہ صرف بڑے اور متوسط و معروف کاروباری حلقے فائدہ اُٹھا سکیں گے بلکہ چھوٹے پیمانے بالخصوص نئی کاروباری حکمت عملیاں بھی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ سہولیات سے فائدہ اُٹھائیں گے جبکہ آن لائن صارفین فیس بک کے اعتماد کے ساتھ خریدای کر سکیں گے۔ فیس بک مارکیٹ پلیس فیچرز کے ذریعے کسی ایک شعبے مثال کے طور پر فرنیچر سازی یا گھروں کے تعمیراتی نقشہ جات بنانے والے اداروں کی خدمات ایک فہرست کی صورت صارفین کو مہیا کی جاتی ہیں جن سے وہ اپنے ذوق اور علم کے مطابق رابطہ کرتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں ہر ماہ 5 کروڑ سوشل میڈیا صارفین فیس بک کا استعمال کرتے ہیں لیکن فیس بک کا یہ استعمال زیادہ تر تفریحی مقاصد یا اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ رابطہ کاری کی حد تک مخصوص (محدود) ہے۔ وقت ہے کہ سوشل میڈیا کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ’اِی کامرس‘ اپنانے اور امانت و دیانت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسی ’مارکیٹ پلیس‘ میں قدم رکھا جائے جو اپنے اندر چھپے لامحدود توسیعی امکانات میں پاکستان سے آگے کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
 اس طرح ای کامرس کی صورت میں ایک ایسادروازہ امکانات کا کھلا ہے جس کے ذریعے ترقی و خوشحالی کی نئی منزلوں تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے اور اس سلسلے میں ضروری ہے کہ ای کامرس کے حوالے سے منظم اور مربوط کوششیں کی جائیں تاکہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور یہ صرف عملی اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے محض نعروں اور دعوؤں سے یہ اہم مرحلہ طے نہیں ہو سکتا یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ابھی ای گورننس میں مکمل کامیابی نہیں مل سکی ہے جس کے حوالے سے بہت تیاری کے دعوے کئے گئے تھے اس لئے ای کامرس کے سلسلے میں بھی عملی پالیسی کو جلد از جلد سامنے لانا چاہئے اور اس پر مکمل تیزی اور ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے تاکہ مشکل دور کا خاتمہ ہو اورخوشحالی و ترقی کے یقینی موقع سے فائدہ اٹھایا جائے۔