سیاحت سے متعلق سرکاری رپورٹ۔۔۔۔

خیبر پختونخوا حکومت نے عید الاضحی پرصوبے کے پرفضاء مقامات پر سیاحوں کی آمد کے بارے میں رپورٹ جاری کر دی ہے رپورٹ کے مطابق عید کے چار دنوں میں صوبے کے سیاحتی مقامات پرملک کے مختلف علاقوں اور بیرون ملک سے 27لاکھ 70ہزارسے زائد افراد کی آمد سے 66ارب روپے کا کاروبار ہوا۔ رپورٹ کے مطابق سیاحت سے مقامی معیشت کو بھی 27ارب سے زائد کا فائدہ ہوا۔ عید کے دوران دس لاکھ سے زائد سیاحوں نے سوات کے علاقے بحرین، کالام، مالم جبہ اور سیدو شریف، دس لاکھ نے گلیات اور ایک لاکھ 20ہزار سیاحوں نے دیر بالا کے سیاحتی مقام کمراٹ کارخ کیا۔ وادی کاغان میں سات لاکھ سے زائد جبکہ چترال میں 50 ہزار سیاحوں کی آمد ہوئی۔عید کے دنوں میں صوبے کے بالائی علاقوں میں سیاحوں کی آمد سے مقامی لوگوں کے روزگار وآمدن میں بھی اضافہ ہوا جبکہ لاکھوں کی تعداد میں سیاح اب بھی صوبے کے سیاحتی مقامات میں سیر وتفریح کر رہے ہیں۔میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد نے صوبے کے سیاحتی مقامات کا رخ کرلیا ہے سیاحوں کی آمد سے ان علاقوں میں ٹرانسپورٹروں، ہوٹل انڈسٹری اور دیگر شعبوں سے منسلک افراد کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ سڑکوں کی مخدوش حالت، قیام و طعام کے مناسب انتظامات نہ ہونے اور بارشوں سے سیلاب کے خطرات کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد اس بات کا ثبوت ہے کہ خیبر پختونخوا میں سیاحت کے غیر معمولی مواقع موجود ہیں۔ انہی سطور میں ہم نے صوبائی حکومت کو یہ تجویز دی تھی کہ صوبے میں ترقی کیلئے سالانہ ایک شعبے کو فوکس کیا جائے۔ خیبر پختونخوا میں سیاحت، معدنیات، جنگلات، اور آبی وسائل کو ترقی دینے سے یہ صوبہ معاشی طور پر خود کفیل ہوسکتا ہے اور ہمیں بینکوں سے قرضہ لینے یا وفاق سے مدد مانگنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ ترقی کے ان وسائل پرباری باری کام شروع کرکے ایک سال کے اندر انہیں مکمل کرنے کا ٹائم فریم مقرر کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ صوبائی حکومت کے پاس مزید دو سال کی آئینی مدت باقی ہے۔ اگر رواں مالی سال کو سیاحت کی ترقی کا سال قرار دیا جائے۔ اورتمام وسائل کا رخ اسی شعبے کی ترقی کی طرف موڑ دیا جائے تو اگلے سال صوبے میں سیاحت کے لئے باہر سے آنے والوں کی تعداد میں پانچ سو فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ اور صوبے کی آمدن میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس صوبے کو قدرتی حسن سے نہایت فیاضی کے ساتھ نوازا ہے یہاں سرسبز و شادات کھیت کھلیان ہیں،شور مچاتے دریا، گنگناتی ندیاں، گھنے جنگلات، فلک بوس برف پوش پہاڑاور بلند آبشار بھی ہیں، انواع و اقسام کی جنگلی حیات اورٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے بھی ہیں۔ یہاں کا ہر نظارہ نظروں کو خیرہ کرتاہے۔ گلیات، وادی کاغان، الائی، شانگلہ، بونیر، بحرین، مالم جبہ، کالام، مرغزار، کمراٹ، لواری، وادی بمبوریت، مداک لشٹ، برموغ لشٹ، کاغ لشٹ، شندور اور بروغل وادی سمیت صوبے کے دیگر سیاحتی مقامات حسن قدرت کے شاہکار ہیں۔ وہاں تک پہنچنے کیلئے ہموار سڑکوں کی تعمیر، سیاحوں کے قیام اور سیکورٹی کی مناسب سہولیات فراہم کرنے سے یہ خطہ سیاحوں کیلئے یورپ، بنکاک، کوالالمپور اور سوئزرلینڈ سے زیادہ پرکشش بن سکتا ہے۔محکمہ سیاحت نے صوبے کے بعض مقامات پر کیمپنگ کی بہترین سہولیات انتہائی مناسب ریٹ پر مہیا کی ہیں کیمپنگ کی یہ سہولیات تمام سیاحتی مقامات پر مہیا کرنے کی ضرورت ہے تاہم سب سے اہم سڑکوں کی تعمیر، توسیع و مرمت اور موثر نگرانی کی ہے۔ کمراٹ، کالام اور چترال میں سڑکوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہے۔ گذشتہ ایک مہینے کے دوران صرف چترال میں مخدوش سڑکوں کی وجہ سے دس ٹریفک حادثات ہوچکے ہیں جن میں کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔ایسی پرخطر،تنگ اور خستہ حال سڑکوں کے باوجود چار دنوں میں پچاس ہزار سیاحوں کی چترال آمد ثابت کرتی ہے کہ اس خطے میں سیاحت کی کتنی پوٹیشنل موجود ہے اور ہم نے 70سالوں تک اپنے سیاحتی مقامات کو دنیا سے دانستہ پوشیدہ رکھ پر اپنے ملک اور قوم کے ساتھ کتنی بڑی زیادتی کی ہے۔