نیم قبائلی علاقوں کے ترقیاتی منصوبے۔۔۔۔

وزیراعلیٰ محمود خان کے زیر صدارت صوبائی ٹاسک فورس کے اجلاس کو بتایا گیا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں چھ ٹرائیبل سب ڈویژنوں کے لئے مجموعی طور پر 515 منصوبے رکھے گئے ہیں، جن کی مجموعی لاگت 59ارب روپے سے زائدہے۔ ان علاقوں میں تیز رفتار عملدرآمد پروگرام کے تحت 140 جبکہ صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت 375 منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔ ابتدائی و ثانوی تعلیم کے شعبے میں ان علاقوں کے لئے 2.97 ارب، آبنوشی کے لئے 1.84 ارب، زراعت کیلئے 2.43 ارب، آبپاشی کے شعبے میں 1.11 ارب، سڑکوں کی تعمیر کیلئے 8.80 ارب روپے جبکہ سیاحت اور کھیلوں کے شعبے میں 2.70 ارب روپے مالیت کے منصوبے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت مکمل کئے جائیں گے۔ٹاسک فورس کو بتایاگیا کہ ان چھ سب ڈویژنوں میں دو ہزار سے زائد خاصہ داروں اور ایک ہزار تین سو لیویز کو پولیس میں ضم کردیا گیا ہے ان علاقوں کے لئے پولیس کی منظورشدہ تقریباً تمام آسامیوں کو پر کیاگیاہے اجلاس میں ان علاقوں میں پولیس انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے اور پولیس کو ہر لحاظ سے مستحکم کرنے کے لئے درکار فنڈز ترجیحی بنیادوں پر فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ان علاقوں میں معمولی نوعیت کے تنازعات مقامی سطح پر حل کرنے کے لئے مصالحتی کونسلوں کو جلد فعال بنانے اورمختلف قبائل کے درمیان حد بندیوں سے متعلق تنازعات کو جرگوں کے ذریعے حل کرنے کے لئے متعلقہ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اجلاس میں ان علاقوں میں ضرورت کی بنیاد پر تعلیمی اور طبی اداروں کو اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تمام سابق ایف آرز میں بنیادی مراکز صحت کو روزانہ چوبیس گھنٹے چلانے کے لئے محکمہ صحت کو ضروری انتظامات کی بھی ہدایت کی گئی۔ علاقے میں روڈ انفراسٹرکچر کے نئے منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔وزیراعلیٰ نے ٹرائبل سب ڈویژنوں کی تیز رفتار اور پائیدار ترقی اور عوام کو درپیش مسائل کے فوری حل کو اپنی حکومت کی ترجیحات کا اہم حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اس مقصد کے لئے تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لائے گی۔ وزیراعلیٰ نے ان علاقوں میں تعلیم اور صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور روڈ انفرانسٹرکچر کی بہتری پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کی۔وفاقی کے زیر انتظام سات قبائلی ایجنسیوں کی طرح صوبے کے زیر انتظام چھ نیم قبائلی علاقوں میں بھی ایف سی آر کا قانون نافذ رہا ہے۔ سابق قبائلی ایجنسیوں کے صوبے میں انضمام کے ساتھ ہی ایف آر پشاور، ایف آر کوہاٹ، ایف آر بنوں، ایف آر ٹانک، ایف آر ڈیرہ اور ایف آر لکی مروت بھی صوبائی حکومت کے ماتحت آگئے۔ ان چھ ایف آرز کے ساتھ صوبے میں شامل نو علاقوں میں پاٹا ریگولیشن نافذ تھا جن میں چترال، سوات، دیر بالا اور دیر پائین کی ریاستوں کے علاوہ بونیر، شانگلہ، کوہستان، کالا ڈھاکہ، الائی، اپرتناول اور امب کی ریاست شامل تھی۔ صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہونے کے باوجود ایف آر کے علاقے بھی قبائلی ایجنسیوں کی طرح گورنر کے ماتحت تھے۔ یہاں پولیس، عدالتوں اور سرکاری محکموں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ان لوگوں کی ملک کے کسی ایوان اور بلدیاتی اداروں میں بھی نمائندگی نہیں تھی۔ صوبے میں انضمام کے بعد ایجنسیوں کے ساتھ ایف آرزکا سیاسی اور معاشرتی نقشہ بھی تبدیل ہوگیا ہے تاہم تبدیلی کے ثمرات یہاں کے عوام تک پہنچنے میں کچھ وقت ضرور لگے گا۔ صوبائی حکومت نے سابق فرنٹیئرریجنز میں تعمیر و ترقی کے جو منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ان کی تکمیل میں دو سے تین سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا فاٹا اور ایف آرز میں ترقیاتی منصوبوں کی خود نگرانی کر رہے ہیں اس لئے توقع کی جاسکتی ہے کہ منصوبے مقررہ ٹائم لائن کے اندر پایہ تکمیل کو پہنچیں گے اور مختص تمام وسائل ان پسماندہ علاقوں کی ترقی پر خرچ ہوں گے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ قبائلی علاقہ جات کو دیگر علاقوں کے برابر لانے میں وقت لگے گا تاہم قابل اطمینان ہے کہ یہاں پر ترقیاتی کام زور وشور سے جاری ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب یہاں پر طویل عرصے سے موجود محرومیوں کا خاتمہ ہوگا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امن و امان اور روزگار کے مواقع کا آپس میں گہرا تعلق ہے جہاں بھی  معاشی ترقی ہو اور لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں وہاں امن و امان کے مسائل پیدا نہیں ہوتے اور ماضی میں قبائلی علاقہ جات اگر بدامنی کا شکار تھے تو اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہاں پر بیروزگاری زیادہ تھی اور معاشی ترقی نہ ہونے کے برابر تھی اب افغانستان میں اگر امن قائم ہوتا ہے تو قبائلی علاقہ جات میں ترقی کا سفر مزید تیز ہوگا کیونکہ یہاں سے وسطی ایشیا کی طرف راستے نکلتے ہیں اور یہ وسطی ایشیا کا دروازہ ہونے کی حیثیت سے اہم علاقہ ہے جہاں پر تجارتی سرگرمیوں سے زندگی کا نقشہ بدل سکتا ہے اور وہ علاقے جو کسی وقت پسماندگی کا شکار تھے وہ ملک کے دیگر حصوں کے نہ صرف برابر آجائیں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ ترقی میں دوسروں کے لئے مثال بن جائیں۔