برسات کے جاری دورانئے(جولائی تا ستمبر) کے دوران اب تک ہوئی بارشوں نے اہل پشاور کی پریشانی و مشکلات میں اضافہ کیا ہے اور آنے والے دنوں کے بارے میں تشویش کا اظہار ہو رہا ہے۔ اِس منظرنامے کا موازنہ اگر ماضی سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ماضی میں اندرون شہر کے علاقوں (کوہاٹی گیٹ‘ قصہ خوانی‘ پیپل منڈی‘ بازازاں‘ سبزی منڈی‘ ریتی بازار اور اشرف روڈ تا شاہی باغ) پانی کی نکاسی بذریعہ شاہی کھٹہ ہو جاتی تھی لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ شاہی کھٹے کے کھلے ہوئے چند حصوں جیسا کہ کوہاٹی گیٹ سے براستہ پشت قصہ خوانی تک اور سبزی و منڈی سے ریتی بازار تک بارش کا پانی شاہی کٹھے سے اُبل آتا ہے کیونکہ پچاس برس سے تجاوزات‘ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر اور مٹی و ریت کے تہہ میں جمع ہونے کی وجہ سے شاہی کٹھے سے نکاس ہونے والے پانی کی گنجائش کم ہو گئی ہے اور اگر معمولی بارش سے بھی پشاور شہر میں جھل تھل ایک ہو جاتے ہیں تو اِس بات پر تعجب کا اظہار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ شاہی کٹھے پر تجاوزات سے مسئلہ گھمبیر ہوا ہیلیکن جب شاہی کٹھے پر قائم تجاوزات کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو ضلعی‘ بلدیاتی‘ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے پاس 2 سے 3 ارب روپے نہیں‘ تاکہ پشاور سے نکاسیئ آب کا مسئلہ کم سے کم آئندہ پچاس برس تک کیلئے حل کر لیا جائے۔مون سون (جولائی تا ستمبر) یا دیگر مہینوں میں بارشوں سے غریب آباد‘ زریاب کالونی‘ زرگرآباد‘ نوتھیہ پھاٹک‘ گڑ منڈی اور سبزی منڈی و ملحقہ علاقوں کا زیرآب آنا معمول بن چکا ہے لیکن اِس مسئلے کا حل جانتے ہوئے بھی مستقل بنیادوں پر نہیں کیا جا رہا۔ شاہی کٹھے کی کل لمبائی 10 کلومیٹر ہے جس کی مرکزی راہداری (حصے) اور اِس میں آ کر گرنے والی نالیوں کی صفائی کیلئے نہ تو درکار خصوصی آلات (مشینری) دستیاب ہے اور نہ ہی شاہی کٹھہ میں پانی کی روانی برقرار رکھنے کے ’صفائی عملہ‘ بھرتی کیا گیا ہے۔ تعجب خیز ہے کہ اِس دس کلومیٹر طویل نکاسیئ آب کے انتہائی اہم وسیلے کا صرف ’5 فیصد‘ یا اِس سے کم حصہ کھلا ہے‘ جہاں سے اِس کی صفائی ممکن ہے۔ شاہی کٹھے کو بنائے 100 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور پشاور میں بطور گورنر تعینات اطالوی فوجی جنرل پاؤلو مارٹینو ایوٹیبل نے نہ صرف ’شاہی کٹھہ (نکاسیئ آب کا مرکزی نظام)‘ تعمیر کروایا تھا بلکہ اُنہوں نے پشاور کے گلی کوچوں میں راستے بھی تخلیق کئے‘ اور یہ دونوں تعمیراتی شاہکار جہاں پشاور کا حسن و کشش ہیں وہیں پشاور کی آبادی کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی ضروریات بھی پوری کر رہے ہیں۔ پشاور سے جنرل ایوٹیبل المعروف ابوطبیلہ کی دلی محبت کو اہل پشاور نے اُس وقت بھی خراج تحسین پیش کیا تھا اور آج بھی اُن کا تذکرہ بطور فاتح حکمران نہیں بلکہ پشاور کے تعمیروترقی میں حصہ داری کے عنوان سے کیا جاتا ہے۔ جنرل ایوٹیبل کے کم سے کم 2 کارہائے نمایاں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے، ایک تو شاہی کٹھے کی کشش ثقل کی بنیاد پر تعمیر ہے اور دوسرا اُنہوں نے فصیل شہر کے اندر پشاور کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک نئی فصیل شہر بھی تعمیر کروائی تھی تاکہ پشاور کے دو الگ الگ حصوں میں رہنے والی آبادی کی مختلف ضروریات کو پورا کیا جا سکے اور پشاور میں شہری سہولیات کا دائرہ کار بڑھانے میں بھی آسانی رہے۔ جنرل ایوٹیبل نے پشاور کی توسیع کی بنیاد بھی رکھی تھی اور اُن کے بنائے ہوئے شہری نقشے (ٹاؤن پلاننگ) کو دیکھتے ہوئے اگر پشاور کی موجودہ توسیع و ترقی کا جامع خاکہ تیار کیا جائے تو اِس سے موجودہ مسائل جو بحران کی صورت اختیار کر چکے ہیں کے حال کرنے میں آسانی رہے گی۔ صوبائی حکومت نے ’احیائے پشاور‘ کے نام سے حکمت عملی وضع کی ہے جس کی ذیل میں ڈیڑھ برس کے دوران ہوئی پیشرفت خاصی اہم ہے اور اِس میں سینکڑوں کی تعداد میں ترقیاتی امور کی نشاندہی ہو چکی ہے لیکن اصل ضرورت تو کاغذوں میں لکھی اور اجلاسوں میں بیان کئے گئے تصورات اور خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی ہے۔ جنرل ایویٹیبل غیرمقامی تھا وہ چند برس پشاور میں مقیم رہا اور وہ قرض بھی ادا کر گیا‘ جو اُس کے ذمے واجب بھی نہیں تھے لیکن ہمارے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کو اپنے حال اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کیلئے پشاور کے بارے سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ اگر پشاور سے نکاسیئ آب کی مقدار و معیار میں اضافہ نہیں کیا جاتا تو اِس سے پشاور بار بار ڈوبتا رہے گا اور دوسری ضرورت پشاور کی توسیع میں ’ٹاؤن پلاننگ‘ کی ہے کہ کوئی ایک بھی رہائشی بستی ایسی نہیں بنائی جا سکی جس میں پشاور کے روایتی فن تعمیر اور گلی کوچوں کا رنگ نمایاں ہو۔ جہاں نکاسیئ آب کا نظام شاہی کٹھے کی طرز پر اِس قدر وسیع ہو کہ سینکڑوں برس تک استعمال کے باوجود بھی فعال رہے اور جہاں سہولیات کی فراہمی کا نظام اِس قدر سوچا سمجھا ہو کہ محلے کوچے اور گلیاں معرض وجود میں آئیں جن سے سماج ایک دوسرے سے جڑ کر رہے۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ اور خوشی غم میں اہل محلہ مل جل کر حصہ لیں جبکہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پشاور کے مضافات میں جس قدر بھی نئی آبادیاں بنائی گئی ہیں‘ وہاں کے رہنے والوں کو دیوار کے ساتھ جڑے گھر کی چاردیواری کی خبر نہیں ہوتی۔