خبر آئی ہے کہ دبئی کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والا پاکستانی ڈاکٹر اپنے اہل خانہ سمیت خالی بوئنگ طیارے میں متحدہ عرب امارات پہنچ گیا۔ ڈاکٹر سید نادر کورونا کے باعث پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان فضائی سفر پر پابندی کے باوجود بوئنگ 777 طیارے میں اپنے گھر والوں کو لے کر یو اے ای پہنچ گیا۔3 سونشستوں والے طیارے میں ڈاکٹر کے ساتھ ان کی اہلیہ اور تین بچے سوار تھے۔ڈاکٹر سید نادر دبئی کے ایڈم وائٹل ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ہیں انہیں اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے کراچی آنا پڑا۔ والدہ کی بائی پاس سرجری کے بعد فوری دبئی واپس لوٹنا تھا۔گولڈن ویزہ کی بدولت انہیں خالی جہاز لے کر دبئی جانے کا موقع مل گیا۔ ڈاکٹر نادر کا کہنا ہے کہ سفری پابندیوں کی وجہ سے کئی ڈاکٹر پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کسی زمانے میں پی آئی اے دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں شمار ہوتی تھی اس وقت پی آئی اے والے واقعی باکمال تھے اور ان کی سروس لاجواب تھی مگر اب وہ تمام کمالات معدوم ہوگئے۔ ایک جانب مالی نقصان کے بہانے ملک کے اندردرجنوں پروازیں ختم کی جاچکی ہیں جبکہ دوسری جانب بے جا اخراجات جاری ہیں۔۔ پشاور چترال روٹ پر گذشتہ تیس سالوں سے روزانہ تین تین پروازیں چلائی جاتی تھیں۔لوگ دس گنا سفری خرچ کے باوجود لواری کے طویل اور پرخطر سفر سے بچنے کیلئے فضائی سفر کو ترجیح دیتے تھے۔ ہفتہ دس دن پہلے بکنگ کئے بغیر ٹکٹ ملنا مشکل ہوتا تھا۔تین پروازوں کے باوجود مسافروں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں دیر سے دروش تک ہیلی کاپٹر سروس بھی شروع کردی گئی۔ جب قومی ائرلائن پر خسارے کا بوجھ بڑھنے لگا تو انہوں نے چترال روٹ پر روزانہ تین پروازوں کی تعداد گھٹا کر ایک پرواز کردی۔ کچھ عرصے بعد نامعلوم وجوہات کی بناء پر پشاور کی ایک پرواز بھی موقوف کرکے اسلام آباد سے چترال پروازیں شروع کردیں حالانکہ اسلام آباد چترال پرواز کی آدھی سیٹیں خالی رہتی ہیں۔اگر اسی پرواز کو اسلام آباد، پشاور، چترال پرواز میں تبدیل کیا جائے تو پی آئی اے اور عوام دونوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ آج کل ہفتے میں اسلام آباد اور پشاور سے دوتین پروازیں ہی چلائی جاتی ہیں۔ اسلام آباد اور پشاور سے چترال کے لئے فلائٹ کی ایک ہفتہ قبل بکنگ کرانی پڑتی ہے۔ ایڈوانس بکنگ پر کرایہ سات ہزار ایک سو وصول کیا جاتا ہے اگر ہنگامی طور پر ٹکٹ کی ضرورت پڑ جائے تو بزنس کلاس کا ٹکٹ تھما دیا جاتا ہے جس کا کرایہ بارہ ہزار سے زیادہ ہے۔ سات ہزار اور بارہ ہزار روپے کا ٹکٹ خریدنے والوں کی سیٹوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ صرف سیٹ کا نام بدل کر ساڑھے پانچ ہزار روپے فی ٹکٹ اضافی وصول کئے جاتے ہیں۔ پندرہ بیس سال پہلے کے مقابلے میں پشاور اور چترال کے درمیان سفر کرنے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔لوگ روزمرہ کاروبار، علاج معالجے، تعلیم اورملازمت کے سلسلے سفر کرتے رہتے ہیں۔حادثات، قدرتی آفات اور کسی بھی ہنگامی ضرورت کے موقع پر بھی لوگ فضائی سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ ساڑھے تین سو کلو میٹر اور35منٹ کی پرواز کا ٹکٹ سات ہزار روپے وصول کیا جاتا ہے اس کے مقابلے میں پشاور سے کراچی تک ایک ہزار سات سو کلو میٹرکے فاصلے کا رات کی پرواز کا کرایہ آٹھ نو ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ پی آئی اے کے علاوہ ملک میں کئی نجی فضائی کمپنیاں بھی کام کررہی ہیں انہوں نے چترال، سوات اور ڈیرہ کیلئے پروازیں شروع کرنے کی پیش کش بھی کی تھی مگر انہیں نامعلوم وجوہات کی بناء پر پروازوں کی اجازت نہیں دی جارہی۔خیبر پختونخوا حکومت نے سیاحت کے فروغ کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست قرار دیا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، سوات اور چترال جانے والے ملکی اور غیر ملکی مسافروں کیلئے فضائی سفر سکیورٹی کے اعتبار سے سب سے محفوظ سفر ہے۔ صوبائی حکومت ان سیاحتی مقامات تک زیادہ سے زیادہ پروازیں شروع کرنے کیلئے وفاقی حکومت اور پی آئی اے انتظامیہ سے رابطہ کرے تو سیاحوں کو صوبے کے خوبصورت مقامات تک رسائی میں آسانی ہوگی۔ سیاحوں کی تعداد بڑھے گی تو مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا، معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا اور حکومت کے وسائل میں بھی اضافہ ہوگا۔ آمدن بڑھے گی تو قومی فضائی کمپنی کا خسارہ بھی کم ہوگا۔اور اسے وفاق کی طرف سے بیل آؤٹ پیکج پر زیادہ انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔نیپال،بنکاک اور ہانگ کانگ سمیت جن ممالک کی معیشت کا زیادہ انحصار سیاحت پر ہے وہاں ائرکنڈیشن بسوں اور جہاز کے کرائے برابر ہیں اور زیادہ تر سیاح باکفایت اور برق رفتار ہونے کی وجہ سے بسوں اور ذاتی گاڑیوں کے بجائے فضائی سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔قومی ائر لائن ہمارا سرمایہ افتخار ہے۔ چیئرمین پی آئی اے اگر پی آئی اے کی عظمت رفتہ بحال کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے عوام کا اعتماد بحال کرنا ہوگا، مسافروں کو وہی سہولت فراہم کرنی ہوگی جو پی آئی اے کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا۔