پولیس شہداء اور غازی۔۔۔۔

سال 2000ء کے بعد سے آج تک خیبر پختونخوا میں خودکش حملوں، بم دھماکوں، راکٹ حملوں، ٹارگٹ کلنگ اور پولیس مقابلوں میں 1508افسران اور اہلکار شہادت کا جام نوش کر چکے ہیں۔ جبکہ ہزاروں دیگر معذور ہوچکے ہیں یا شدید زخمی ہونے کے بعد کئی سالوں سے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دیگر سرکاری اور نجی اداروں کی طرح پولیس میں کچھ کالی بھیڑیں ہیں جو فورس کو حاصل اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں، لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں، ان کیلئے مسائل پیدا کرتے ہیں اور اس کے ذریعے پیسہ بناتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سخت حالات میں فوج اور دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکار ڈٹ کر کھڑے رہے اور حملہ آوروں کو عوام اور ملک کو نقصان پہنچانے سے روکنے کی اپنی بھر پور کوشش کی۔ سینکڑوں اہلکار اس دوران جان سے بھی گئے جبکہ ہزاروں شدید زخمی اور معذور ہوئے۔ ان اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ہر سال 4اگست کو یوم شہداء منایا جاتا ہے جبکہ موجود پولیس سربراہ معظم جاہ انصاری کی ہدایت پر اس سال یکم اگست کو یوم غازیان پولیس کے طور پر منایا گیا۔ یوم شہداء کے سلسلے میں ہر سال تقریباً دو ہفتوں تک صوبہ اور ملک بھر میں خون کے عطیات کیلئے کیمپ، سیمینار، ور کشاپ اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔شہداء کی قبروں پراور ان کے اہل خانہ کے پاس حاضری دی جاتی ہے اور انہیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کے پیاروں کی قربانیاں نہ تو رائیگاں جائینگی نہ ہی ان کو بھلایا جاسکے گا۔یوم شہداء شہید ہونے والے سینئر ترین پولیس اہلکار اور بہادر کمانڈر صفوت غیور کی شہادت کی برسی کی مناسبت سے منایا جاتاہے۔ فورس کے اس بہادر کمانڈر کو 4اگست 2010 کو اس وقت شہید کیاگیا جب وہ ڈرائیور کے ہمراہ صدر میں واقع اپنے دفتر سے نکل رہے تھے صفوت غیور اور محمد اشرف نور شہید ہونیو الے سب سے سینئر پولیس افسران ہیں ان کے علاوہ دو ڈی آئی جیز ملک محمد سعد اور عابد علی دو مختلف واقعات میں شہید کئے گئے۔ شہید ہونیوالے دیگر افسران اور اہلکاروں میں ایک ایس ایس پی، 6 ایس پی، 17 ڈی ایس پی یا قائم مقام ایس پی،32 انسپکٹر،125 سب انسپکٹر،85 اے ایس آئی اور 152 حوالدار شامل ہیں۔ شہداء اورغازیوں کی سب سے بڑی تعداد البتہ سپاہیوں کی ہے جو فورس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر کاروائی میں شریک ہوتے ہیں۔ گزشتہ21 سالوں کے دوران صوبہ بھر میں ہونے والے حملوں میں 1087 کانسٹیبل شہید کئے گئے ان میں خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے مختلف حملوں میں شہادت کا جام نوش کیا۔ خطے کی موجودہ صورتحال کے باعث پولیس پر حملوں میں ایک بار پھر اضافہ تشویشناک ہے خدا کرے کہ نہ صرف پولس اہلکار بلکہ تمام عوام، ہمارا ملک اور خطہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال، دہشت گردی اور بدامنی سے محفوظ رہے۔ ہم لوگوں نے کئی سال تک جسد خاکی اٹھائے ہیں۔اب اس خطے میں پائیدار اور مکمل امن قائم ہونا چاہئے تاکہ لوگ خوش رہیں پڑھے لکھیں‘ ترقی کریں اور ملک وقوم کی خدمت کریں۔