پولیس کانام آتے ہی دل ودماغ میں متضاد خیالات گردش کرنے لگتے ہیں جن کاتعلق گذشتہ دنوں کے دوواقعات سے بھی ہے ایک ویڈیو وائر ل ہوئی تھی جس میں ایک پولیس اہلکار بغیر کسی جرم اورغلطی کے ایک غریب ریڑھی بان پر ظالمانہ تشدد کرتا دکھائی دیا مفت آڑوکے معاملہ پر غصہ میں آکر پولیس اہلکار نے نہ صرف سرعام پھل فروش کو مارا پیٹا اورگالیاں دیں بلکہ الٹا موبائل گاڑی میں ڈال کرتھانے میں بھی بند کردیا ویڈیو وائرل ہونے پر فوری نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس نے اس کوفوری طورپر معطل کرنے کے احکامات جاری کرکے تحقیقات کاحکم بھی جاری کردیا۔ ویڈیو سامنے آنے کے بعد پولیس کے حوالہ سے نفرت انگیز تبصروں کاایک سیلاب رواں ہوگیا عین اسی روز کارخانو مارکیٹ میں ہینڈ گرنیڈ کے مبینہ حملہ میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا جس کے بعد پولیس کی قربانیوں کاذکر بھی کیاجانے لگا گویا پولیس فورس کی کسی غلطی کو معاف نہ کرنے والی قوم پھراس کی قربانیوں کا برسرعام اعتراف بھی کرتی ہے اور کرنابھی چاہئے اور آج ایک بارپھر ان بے شمار شہداء کی قربانیوں کو خراج عقید ت پیش کیاجارہاہے جنہوں نے خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کو کچلنے اور ہم جیسے لوگوں کو محفو ظ رکھنے کیلئے اپنے بچے یتیم ہونے دیئے جب صوبہ میں عسکریت پسندی نے آگے بڑھ کر مسلح بغاوت کی سی صورت اختیار کرنی شروع کی تو اس وقت پولیس ہی اولین دفاعی لائن بن کرسامنے آئی یہ خاصا کٹھن دورتھا کیونکہ اگراس وقت ہماری پولیس حوصلہ ہار جاتی یا پسپائی اختیارکرجاتی تو پھر عملاً وہ سب کچھ تمام بڑے شہروں میں ہوکررہناتھا جو سابقہ فاٹا میں ہوا اگر پشاورسمیت بڑے شہروں کے مکین اپنے گھروں سے بے گھرہوکر آئی ڈی پیز نہیں بنے اورشہروں میں بڑی فوجی کاروائیوں کی ضرورت پیش نہیں آئی تو اس میں سب سے بڑا کردار ہماری پولیس کاہے ہمیں وہ دن بھی یاد ہیں کہ جب خودکش حملے معمول بن کررہ گئے تھے پولیس سب سے بڑا ٹارگٹ بن چکی تھی ایک وقت ایسابھی تھاکہ دہشتگردوں اور پولیس میں اعصابی جنگ چھڑ گئی تھی جس میں اگر پولیس ہار جاتی تو صوبہ بھر میں قتل وغارتگری کابازار گرم ہوجاتا ٹانک شہر پر عسکریت پسندوں کاحملہ اور اس موقع پر پولیس کی طرف سے بہادری کے ساتھ شہر کادفاع کرنا اسی کاایک بڑا ثبوت ہے پشاور میں بھی یہی صورت حا ل رہی جہاں سپاہی سے لے کرڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی تک نشانہ بنے مگر پولیس کے حوصلے بلند رہے ایک دن کسی پولیس پوسٹ پرحملہ ہوتا پولیس کے کئی اہلکار جان کی بازی ہارجاتے تو اگلے دن نئے جوان نئے عزم وحوصلہ کے ساتھ اسی پوسٹ پر ڈیوٹی دے رہے ہوتے۔ اس خونی عشرے ڈیڑھ عشرے کے دوران کوئی ایک مثال بھی ایسی سامنے نہیں آئی کہ کسی پولیس اہلکار نے خوفزدہ ہوکر ڈیوٹی دینے سے انکار کردیاہو یہ وہی پولیس تھی کہ عام دنوں میں جن کارویہ لوگوں کے ساتھ کبھی مثبت نہ رہا جن سے ہمیشہ عام لوگوں کو بے شمار شکایات ہی رہیں تھانوں میں شریف شہری بے عزت ہوتے رہے مجرموں کوعزت ملتی رہی مگر دہشتگردی کی لہر کے دوران ہمیں ایک بالکل مختلف پولیس نظر آئی جس نے اپنی قربانیوں، اپنے عزم اور اپنے جذبے کی بدولت ماضی کے سارے داغ دھوڈالے سارے گلے ختم کرا دیئے ایک ایک کرکے پولیس افسران دھماکوں اور اہدافانہ قتل کانشانہ بنتے چلے گئے مگر کسی بھی طرح ان کے عزم کوشکست نہ دی جاسکی اور ہماری پہلی دفاعی لائن نے ثابت کردیاکہ ہم مشکل حالات میں اس پربھروسہ کرسکتے ہیں چند سال قبل جب شہدائے پولیس کادن منانے کیلئے تیاریاں جاری تھیں تو ڈی آئی جی فصیح الدین اشرف ہی کو اہم ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں جنہوں نے پھر پشاور کے کالم نگاروں کی ایک بیٹھک اس وقت کے ایڈیشنل آئی جی اشرف نور شہید کے ساتھ کروائی تھی جن کے دل میں پولیس شہداء کے لواحقین کیلئے کچھ کر دکھانے کاجذبہ تھا مگر ان کو پتہ نہیں تھاکہ اگلی بار جب یہ دن منایا جارہاہوگا تو شہداء کی صف میں وہ خود بھی شامل ہوچکے ہونگے یہ عملی قربانی کی بڑی مثال تھی مگر مجال ہے کہ ہماری پولیس ہمت ہاری ہو و ہ ا ب بھی ڈٹی ہوئی ہے اور اس نے عوام کا اپنے اوپر اعتمادمتزلزل نہ ہونے کا تہیہ کیا ہواہے اس برس پھر ان شہداء کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیاجارہاہے جو اپنی مٹی پر قربان ہوگئے ہمیں یہ بھولنانہیں چاہئے کہ معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا کشمکش ابھی جاری ہے ابھی مزید قربانیاں دینی ہیں لیکن اپنی پہلی دفاعی لائن کو مضبو ط تر بنانے کیلئے تمام حلقوں کو کردار ادا کرنا ہوگا شہداء کی یادمنانے کامطلب محض الفاظ کا ہیر پھیر نہیں ہوناچاہئے بلکہ شہداء کے لواحقین کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے شہداء ٹرسٹ قائم کرکے عملی اقدامات کرنا چاہئیں اسی طرح شہداء کے کارناموں کو زندہ رکھنے کیلئے شہدائے ملاکنڈ اور شہدائے ڈیرہ پولیس جیسی کتب لکھنی چاہئیں مذکورہ دونوں کتب موجودہ آئی جی اسلام آباد برادرم قاضی جمیل الرحمان کی کاوشیں ہیں انہوں نے ان کتابوں کے ذریعہ ملاکنڈ اور ڈیرہ پولیس کی شہادتوں کی داستان کو آنے والی نسلوں کیلئے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دستاویزکی صورت میں محفوظ کرلیاہے عام طوریوم شہدائے کے آتے ہی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں مگر عام دنوں میں اس حوالہ سے خاموشی ہوتی ہے ضروری ہے کہ اس حوالہ سے تقریبات سارا سال جاری رکھنے کے حوالہ سے کوئی حکمت عملی ترتیب دی جائے اور ساتھ ہی قاضی جمیل الرحمان کی طرح کوئی صاحب قلم اٹھ کرپشاور سمیت دیگر ریجنز کے پولیس شہداء کے حالات زندگی کو محفوظ بنائے اگر یہ کام قاضی صاحب خود ہی کرلیں کم ازکم پشاور ریجن کے حوالہ سے کیونکہ وہ سی سی پی او بھی رہ چکے ہیں اور ان کو تجربہ بھی ہوچکاہے تو بہتر رہے گا وگرنہ پھریہ معاملہ ہمیشہ کیلئے نظر انداز ہوسکتاہے چاراگست کو پوری قوم شہداء کے لواحقین کے ساتھ کھڑ ہوگی وفاقی حکومت کو بھی اس میں اپنا حصہ ضرور ڈالناچاہئے وفاقی سطح پر بھی کوئی نہ تقریب ہونی چاہئے یا کم ازکم پشاور میں منعقد ہ تقریب میں وفاقی حکومت کی نمائندگی ضرور ہونی چاہئے۔