اسلامی سال کے پہلے مہینے ’محرم الحرام‘ کا آغاز 9 یا 10 اگست سے ہو رہا ہے جبکہ یوم عاشور (10محرم الحرام) اٹھارہ یا اُنیس اگست اور چہلم اِمام 27 یا 28 ستمبر روایتی مذہبی جوش و خروش سے منانے کی تیاریاں اور انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔ کامل ”2 مہینے 8 دن“ پر مشتمل اِن ایام ِعزا کے حوالے سے ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہری سہولیات فراہم کرنے والے اداروں اور محکمہئ صحت کو شریک کرتے ہوئے ضلعی حفاظتی اقدامات (سیکورٹی پلانز) تشکیل دیئے ہیں‘ تاہم امامیہ جرگہ خیبرپختونخوا نے پشاور سمیت حساس علاقوں میں سیکورٹی انتظامات مزیدسخت کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔عزاداریئ سیّد الشہدأ کے ذریعے تمام مسالک اور جملہ مسلم و غیر مسلم مکاتب ِفکرکے درمیان جس ہم آہنگی کا قیام اور فروغ ہونا چاہئے‘ اُس کی اہمیت و ضرورت تو ہر کوئی محسوس کر رہا ہے لیکن اِس سلسلے میں اِنفرادی و اجتماعی حیثیت سے ’ذمہ داری‘ اور ’احساسِ ذمہ داری‘ عام نہیں۔ محرم الحرام کی مناسبت سے حفاظتی انتظامات پر سرکاری خزانے سے ہر سال کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن مثالی صورت میں امن و امان کو بحال نہیں کیا جاتا جس کے بعد خصوصی حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہی پیش نہ آئے جیسا کہ مقامی اور غیرمقامی کی تمیز نہ کرتے ہوئے بازاروں اور راستوں کو ہر قسم کی آمدورفت کے لئے بند کرنا اور موبائل فونز کی سروسز معطل رکھنے جیسے انتظامات ناقابل فہم ہیں۔ 1992ء سے قبل میں صرف افغان مہاجرین اور مقامی و غیرمقامی (دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے) متنازعہ علمائے کرام کے داخلے پر پابندی عائد کی جاتی تھی لیکن سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے نفرت انگیز تقاریر پھیل جاتی ہیں اور یہ پابندی بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ کورونا وبا کے ظاہر ہونے کے بعد سے رواں برس دوسری مرتبہ محرم الحرام کی مناسبت سے مذہبی اجتماعات منعقد ہوں گے جن میں مساجد و امام بارگاہوں کی چاردیواریوں کے اندر اور کھلے مقامات پر ”کربلا شناسی“ عام کرنے کے لئے ذکر و فکر کی محافل منعقد ہوں گی۔کسی اور مرحلہئ فکر پر بیان کیا جائے گا کہ اِمام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی عظیم قربانی (قیام و عمل) کا ذکر کس طرح ہدایت‘ اخلاقیات پر مبنی معاشرت اور سب سے بڑھ کر اِنسانیت کے فروغ کا ذریعہ ہیں لیکن اِس لمحہئ فکریہ پر صرف اِسی جانب توجہ دلانی ہے کہ اگر ’درحسینؓ پہ ملتے ہیں ہر مزاج کے لوگ …… یہ دوستی کا وسیلہ ہے دشمنی کا نہیں“ اور اگر اِس حقیقت کو بھی سمجھ لیا گیا ہے کہ ”اِنسان کو بیدار تو ہو لینے دو …… ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ“ تو پھر اختلاف کی گنجائش کہاں اور کیوں رہ جاتی ہے!؟ علامہ ڈاکٹر سیّد کلب حسین صادق نقوی (وفات نومبر دوہزاربیس) نے ایک خاص نکتے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا تھا کہ ”اگر منبر سدھر جائے تو معاشرہ خود بخود سدھر جائے گا۔“ مگر مشکل تو یہی ہے کہ منبر و محراب کی ذمہ داریوں کا خاطرخواہ احساس نہیں کیا جا رہا اور ”تو برائے وصل کردن آمدی …… نے برائے فصل کردن آمدی (ترجمہ) تو جوڑ (پیار) پیدا کرنے کے لئے (دنیا) میں آیا ہے ناکہ توڑ (اختلافات) پیدا کرنے کے لئے۔“ جیسی صورتحال درپیش ہے۔ اس لئے محرم الحرام کے دوران حالات و تعلقات معمول پر لانے اور فاصلے و اختلافات ختم کرنے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ اسلامی جمہوریہ میں امن دوست معاشرے کا چہرہ اُبھرے۔ اِس موقع پر تمام تر ذمہ داری علمائے کرام کی نہیں بنتی بلکہ ہر کس و ناکس کو چاہئے کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے تقاریر کے ایسے کلپس شیئرنہ کرے‘ جن میں فروعی باتوں کو علمی بحث کی بجائے شدت و یک طرفہ زوایئے سے بیان (پیش) کیا جاتا ہے اور اِس سے مذہبی منافرت پھیلتی ہے۔ مذہبی تعلیمات پر عمل سے لیکر مذہبی عقائد اور مراسم کی ادائیگی تک ہر لفظ اور ہر اقدام احتیاط پر مبنی ہونا چاہئے جس سے دوریاں ایجاد نہ ہوں اور فاصلے قربت سے بدل جائیں جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔