افغان صدر اشرف غنی نے اپنے ملک کی مخدوش سکیورٹی صورتحال کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے امریکہ کو پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ امریکی اور نیٹوافواج واپس بلائی گئیں تو سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے،انہوں نے دعویٰ کیا کہ جن علاقوں میں صورتحال خراب ہے۔وہاں آئندہ6 مہینوں میں حالات قابو میں آجائیں گے، افغان صدر کا کہنا ہے کہ امریکہ نے جاتے جاتے ہماری بھرپور مددجاری رکھنے کا عہد بھی کیا ہے۔افغان پارلیمنٹ سے خطاب میں صدراشرف غنی نے طالبان کی پیش قدمی روکنے اور خراب سکیورٹی صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے سکیورٹی پلان بھی پیش کیا۔افغان صدر کا شکوہ اس قول کے مصداق ہے کہ ”جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے“جو لوگ طوفان بادوباراں سے بچنے کیلئے پتوں پر تکیہ کرتے ہیں ان کا زبوں حال ہونا فطری امر ہے۔ امریکہ نے افغان حکومت کو واقعی سرپرائز دیا ہے۔ فوجی انخلاء کیلئے تاریخ یکم ستمبر مقرر کی گئی تھی جولائی میں ہی راتوں رات بگرام کا ہوائی اڈہ خالی کردیا اور نودوگیارہ ہوگیا۔ اب تو امریکی بہ بانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ افغان اپنے جھگڑے اور تنازعات خود حل کریں اور اپنے ملک کا انتظام سنبھالیں۔ہمارے دل کا زور ختم ہوگیا۔ہمارے گاؤں میں عید کے موقع پر انڈے لڑانے کا رواج ہے۔ ایک مرتبہ انڈے لڑانے والے متحارب گروپوں میں خوب لڑائی ہوگئی۔ بیچ بچاؤ کے بعد جب لڑائی کی وجہ پوچھی گئی تو فریق اول کا کہنا تھا کہ فریق دوم نے میرا انڈہ توڑا۔ یہ کھیل کا حصہ ہے اس پر مجھے غصہ نہیں آیا۔ لیکن جب اس نے میرا انڈہ توڑنے کے بعد اپنے ساتھی کو آنکھ ماری تو مجھ سے برداشت نہیں ہوسکا اور میں نے اس کا گریبان پکڑ لیا۔ افغان صدر کو بھی امریکہ سے انڈے توڑنے کا گلہ نہیں۔ امریکی وزیرخارجہ، مشیر قومی سلامتی اور پینٹاگون کی طرف سے آئے روز بیانات آرہے ہیں کہ طالبان نے تین چوتھائی افغانستان کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور افغان حکومت کی رٹ کابل تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ بات اگرچہ سچ ہے مگر اشرف غنی اسے اپنے لئے باعث رسوائی سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ شدت پسندوں کی مزاحمتی تحریک وقتی اُبال ہے۔ اب بھی ان کی پورے افغانستان پرحکمرانی ہے۔ چند مہینوں کے اندر بغاوت کچل دی جائے گی۔ جب سے امریکی فوج افغانستان سے واپس گئی ہے امریکی حکام دانستہ طور پر اشرف غنی کو تنگ کر رہے ہیں۔ افغان صدر اپنے ملک کے بیشتر مسائل کو پاکستان کی پیداکردہ گردانتے ہیں تو امریکہ سے بیان آتا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور افغان امن عمل میں پاکستان کا بنیادی کردار ہے۔ چونکہ پاکستان اور افغانستان کے مفادات مشترک ہیں اس لئے آئندہ بھی پاکستان ہی افغان عمل کا منطقی انجام تک پہنچا سکتا ہے۔ واشنگٹن سے ایسے برانگیختہ کرنے والے بیانات تواتر کے ساتھ آنے پر افغان صدر کا مشتعل ہونا فطری بات ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ افغان طالبان نے حال ہی میں عندیہ دیا ہے کہ وہ ہتھیار ڈالنے کیلئے تیار ہیں لیکن اشرف غنی ان کے ہتھیار ڈالنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ گویا طالبان کے بقول افغان صدر نہیں چاہتے کہ طالبان ہتھیار ڈال دیں۔ دوسری جانب اشرف غنی نے خانہ جنگی کی تمام تر ذمہ داری طالبان پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کیلئے اپنے ہی ملک میں فتوحات کے جھنڈے گاڑھنے شروع کردیئے ہیں۔ نوشتہ دیوار یہ ہے کہ افغانستان میں تمام گروپوں پر مشتمل وسیع البنیاد قومی حکومت کے قیام کے بغیر وہاں خانہ جنگی کا خاتمہ اور امن کا قیام ممکن نہیں۔