پشاور کہانی: فصیل شہر پناہ۔۔۔۔۔

ضلعی و بلدیاتی فیصلہ ساز پشاور سے تجاوزات ختم کرنے کیلئے پُرعزم ہیں جبکہ تجاوزات قائم کرنے والوں کے حوصلے بھی پست نہیں جو اپنے خلاف ہونے والی ہر محکمانہ کاروائی (مالی نقصانات) کو برداشت کرتے ہوئے ’ٹس سے مس‘ نہیں ہو رہے‘ تازہ ترین کاروائی سکندر پورہ کے مقام پر پیش آئی ہے جہاں فصیل شہر کے ایک حصے کو منہدم کر کے عارضی دروازہ قائم کرنے کی کوشش ناکام بنائی گئی ہے لیکن پشاور کے نگران بلدیاتی ادارے (ٹاؤن ون) اہلکاروں کی یہ کاروائی فوری عمل میں نہیں بلکہ تین دن تک سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر اور ویڈیوز کے بعد  ہی کاروائی کی گئی اور کہا گیا ہے کہ 1: فصیل ِشہر کا جو حصہ مسمار کیا گیا ہے اُسے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔ 2: فصیل ِشہر مسمار کرنے والے چار افراد کو گرفتار کر کے متعلقہ پولیس تھانے (ہشت نگری) کے حوالے کر دیا گیا ہے اور 3: فصیل ِشہر مسمار کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔ تاریخ و تحقیق شناسوں کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ ’فصیل شہر‘ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ پشاور ہے۔ قدیم سے قدیم کتب میں بھی پشاور کا تذکرہ ملتا ہے جیسا کہ 539ء کے تاریخی واقعات میں اگر پشاور موجود ہے تو اِس کا مطلب یہی ہے کہ اِس کا وجود اِس سے قبل تھا اور یہی وجہ ہے آثار قدیمہ کے ماہرین نے عالمی سطح پر پشاور کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اِسے نہ صرف پاکستان بلکہ جنوب ایشیا کا قدیم ترین (زندہ تاریخی) شہر قرار دیا ہے اور یہ اختلافی بات نہیں۔ دوسری صدی عیسوی کی ’کشان بادشاہت‘ کا صدر مقام پشاور تھا اور کشان کی بادشاہت 30 سے 375 عیسوی جاری رہی! یادش بخیر جنوری 2016ء میں صوبائی حکومت نے ’فصیل شہر‘ سمیت قدیم پشاور کو محفوظ بنانے کیلئے ایک حکمت عملی (ماسٹر پلان) منظور کی اور اِسے عملی جامہ پہنانے کیلئے منصوبے (PC-1) بھی وضع کئے گئے۔ مذکورہ حکمت عملی جامع تھی جس کے تحت پشاور کی ہر قدیم عمارت و آثار کو الگ الگ دستاویز کرنا تھا اور اِسی منصوبہ بندی کے تحت پشاور میں شہری زندگی کی بنیادی سہولیات کو ازسرنو مرتب کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا تھا پشاور کو سمجھنے کی کوشش کرنے والے ’فصیل شہر‘ کو برطانوی دور سے منسوب کرتے ہیں جو 1849-49کے درمیان تعمیر ہوئی لیکن ایسا نہیں تھا بلکہ فصیل شہر اِس سے قبل موجود تھی جس کی ایک جیسی 20فٹ بلندی اور اِس میں 16 دروازے قائم زیادہ مضبوط (لکڑی و لوہے کے) ڈھانچوں کی صورت تعمیر کئے گئے۔ پشاور کو یہی چیز ممتاز بناتی تھی کہ اِس کی پرپیچ (zigzag) گلیاں کوچے اور تنگ راہداریاں ہوا کرتی تھیں‘ جو آج بھی شہر کے قدیمی حصے میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ برطانوی دور کے دوران بالخصوص 1848ء میں پشاور کی ترقی پر توجہ دی گئی اور اِسے وسعت دیتے ہوئے سکندر پورہ کے مقام پر ایک اور فصیل شہر بنا کر اِسے توسیعی آبادی کو پشاور شہر کا حصہ بنا لیا گیا لیکن فصیل شہر کا یہ حصہ چونکہ 100 سال قبل تعمیر ہوا تھا اِس لئے یہ  بھی قدیمی فصیل شہر جیسی ہی حیثیت رکھتا ہے۔ پشاور میں بجلی کا نظام 1932ء میں متعارف ہوا اور حیرت کا مقام یہ ہے کہ تب کے لگے ہوئے کھمبے اور سٹریٹ لائٹس کے باقی ماندہ آلات اب بھی ناکارہ حالت میں لگے دیکھے جا سکتے ہیں جنہیں معمولی توجہ و مرمت سے بحال (قابل استعمال) بنا کر پشاور کو اِس کے ماضی سے متصل کیا جا سکتاہے 1987ء میں بھی پشاور کی ترقی اور منصوبہ بندی سے متعلق حکمت عملی  (ڈویلپمنٹ اینڈ پلاننگ پروگرام) بنایا گیا تھا جبکہ تحفظ ماحول کی عالمی تنظیم ’آئی یو سی این (IUCN)‘ نے بھی ایک حکمت عملی بنائی تھی اور ایسی بہت ساری سوچ بچار کی بازگشت اکثر ’اربن پالیسی یونٹ‘ میں سنی جاتی تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک سے بڑھ کر ایک جامع حکمت عملی وضع کی جاتی رہی ہے لیکن جب وقت عمل درآمد کا آتا ہے تو کبھی مالی وسائل کی کمی آڑے آتی ہے  توکبھی کچھ اور۔۔۔پشاور سے تعلق رکھنے والے بلدیاتی اداروں کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نئے عنوان (احیائے پشاور) سے عملی اقدامات تک کم سے کم پشاور کی باقی ماندہ فصیل شہر کے نشان مٹنے سے بچا لیں۔