تربیت اورصرف تربیت 

لکھتے لکھتے تھک گئے ہیں سمجھاتے سمجھاتے تو اب اکتاہٹ سی بھی ہونے لگی ہے لیکن بعض موضوعات و معاملات اس قدر حساس اوراہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ان کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا اور باربار کی تکرار ضروری ہوتی ہے کیونکہ ہماری قوم ایسی ہے کہ اس کے دماغ پر ہتھوڑے برسابرساکرہی قائل کیاجاسکتاہے اللہ بخشے حکیم محمد سعید کو جو کہا کرتے تھے کہ ہماری قوم کو تعلیم سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہے تین عشرے بعد ان کاکہاحرف بہ حرف درست ثابت ہورہاہے کیونکہ آج کل تعلیمی ادارے صرف رسمی تعلیم کے حصول کاذریعہ بنائے جاچکے ہیں تربیت کے لئے نہ والدین کے پاس وقت ہے نہ ہی اساتذہ اس کو اپنی ذمہ داری تصور کرتے ہیں چنانچہ ہمارے ہاں تعلیم وتربیت کارشتہ کمزور تر ہوتا جارہاہے یہی وجہ ہے کردار سازی کاعنصرنگاہوں سے اوجھل ہونے کے بعد نوجوان نسل کے مسائل بھی بڑھتے جارہے ہیں ہم لوگ سکول کالج اس لئے جاتے ہیں تا کہ پڑھ لکھ کے اچھی نوکری حاصل کر سکیں۔ ہم تعلیم حاصل کرنے نہیں بلکہ صرف ڈگری کے حصول کیلئے پڑھتے ہیں۔ یہی تو وجہ ہے جہاں تعلیم زیادہ ہو گئی ہے وہاں جہالت بھی۔ جیسے جیسے کتب بڑھتی جا رہی ہیں ویسے ویسے تعلیم کا اثر بھی کم ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ ہمارا مقصد تعلیم ہی ٹھیک نہیں۔ کسی کے پاس کتنا علم ہے یہ تو ہمارے لئے بالکل معنی نہیں رکھتا بلکہ ہر بات کو ڈگری سے تولتے ہیں۔ ہم بچوں کو کبھی بھی یہ نہیں کہتے کہ اچھی تعلیم حاصل کرو بلکہ یہی کہا جاتا ہے کہ اچھے نمبر حاصل کرو۔ جب ان کی ذہن سازی ہی ایسے کی جانی ہے تو پھر وہ بھی صرف نمبروں کے حصول کے لئے پڑھتے ہیں۔ بہت سے لوگ رٹا لگاتے ہیں کیونکہ چاہئے تو صرف نمبر ہی ہوتے ہیں نا اور پھر کچھ لوگ تو نقل سے کام چلاتے ہیں کیونکہ مسئلہ تو صرف نمبروں اور گریڈ کا ہے۔ ہمارے چھوٹے بچوں کا بیگ بھی دیکھیں تو کتابوں سے بھرا ہوتا ہے اور ماں باپ صرف اس بات پہ خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ پڑھتا ہے۔ مگر وہ کیا پڑھتا ہے یہ دیکھنے کا ان کے پاس وقت نہیں۔آج کل کے بچوں کو تو مطالعہ کا کوئی پتا ہی نہیں صرف درسی کتابیں ہی جیسے تیسے پڑھتے ہیں اور بس۔ نہ سیرت طیبہ پڑھی نہ صحابہ کرام کے واقعات کہ جن سے ادب ملتا زندگی گزارنے کا طریقہ ملتا مگر بات تو پھر وہی ہے ہم اپنے اصل سے بھٹک گئے ہیں۔ ہمارا معیار تعلیم بدل گیا ہے یاں یوں کہہ لیں کہ معیار زندگی۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ جہالت دور ہو تو ہمیں معیار تعلیم بدلنا ہو گا۔ صرف کتابیں ہی نہیں سوچ بھی بدلنی ہو گی یہ ہی واحد حل ہے کہ ہم کامیاب ہو سکیں اس معاملہ میں اساتذہ کاکردار بھی انتہائی اہم ہے انسان جس بھی مقام و مرتبہ تک پہنچے اسے وہاں تک پہنچانے میں اس کے اساتذہ کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ استاد ہی وہ ہستی ہے جو تعلیم کے قیمتی زیور سے آراستہ کرنے کیساتھ اخلاقی، علمی و روحانی تربیت کرتا ہے، اسی لئے انہیں روحانی والد کا درجہ دیا گیا ہے۔ استاد بنا ستائش و توصیف کی تمنا کے اپنا فرض عبادت سمجھ کر ادا کرتا ہے اور ایک طالب علم کو فرش سے عرش تک لے جاتا ہے۔آج گریڈز، نمبرز، ڈگریز کی دوڑ نے استاد اور مقام استاد کو فراموش کر دیا ہے کچھ عرصہ پہلے تک والدین خود اساتذہ کے پاس جا کر اپنے بچوں کی شکایتیں کرتے تھے کہ آپ انھیں یہ سمجھائیں، فلاں نصیحت کریں، وغیرہ وغیرہ کیونکہ یہ تصور پایا جاتا تھا کہ بچوں کو استاد ہی سدھار سکتا ہے۔ مگر اب تو شاگرد ذرا سی ڈانٹ کی شکایت لگا کر اپنے والدین کے ہاتھوں اپنے استاد کوسبق سکھاتے ہیں۔ ایسے طلبہ عزت و احترام سے محروم تباہ کردار کے مالک بنتے ہیں۔ڈگری حاصل کرنے کو ہی اپنا مقصدِ حیات سمجھنے والے ملکی تعمیر و ترقی میں کیا حصہ لے سکیں گے؟ یہ یقینا لمحہ ِفکریہ ہے۔ ہمیں اپنا مستقبل سنوارنا ہے یا اخلاق و کردار سے عاری مردہ ضمیر معاشرہ تشکیل دینا ہے؟ آج طلبہ کی تربیت سے پہلے اساتذہ کی تربیت ضروری ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہترین معلم تھے۔ اپنے اصحاب کو انھوں نے بہترین تعلیم و اخلاق سے آراستہ کیا۔ شیر ِخدا نے تو خود کو ایک لفظ سکھانے والے کو اپنا استاد قرار دے دیا۔ خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے آپس میں استاد کی جوتی اٹھانے پر لڑتے ہیں کہ دونوں چاہتے ہیں کہ وہ اپنے استاد کی تکریم زیادہ سے زیادہ کر سکیں۔ وہ استاد واقعی میں روحانی و علمی تربیت کرتے تھے اور بارِ امانت جانتے ہوئے اپنا علم منتقل کرنا افضل سمجھتے تھے۔ آج اساتذہ کو ویسا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے بدقسمتی سے تربیت کو نظرانداز کرنے میں والدین نے بھی اپنا کردار ادا کیاہے پہلے تربیت کاآغازگھر سے ہوتا اور تعلیمی اداروں میں یہ سلسلہ عروج پرپہنچ جاتا یوں تعلیمی اداروں سے صرف ڈگری یافتہ نوجوان نہیں بلکہ باکردار انسان بھی نکلتے تھے کیونکہ اس وقت نمبروں اورگریڈوں کے حصول کی یہ بے ترتیب اور بلامقصد دوڑ شروع نہیں ہوئی تھی سو اس وقت معاشرہ کے ہرشعبہ میں ترقی اور اخلاقی برتری دکھائی دیتی تھی اور آج صورت حال سب کے سامنے ہے دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی اداروں میں اچھے انسان سامنے لانے پر زور دیاجاتاہے اور اس کے لئے مختلف النوع عملی تربیتی پروگرام شامل کئے گئے ہیں یوں وہ علم اوراخلاقیات دونوں میں ہم سے آگے جارہے ہیں کسی نہ کسی حد تک ہمارے دینی مدارس میں آج بھی اخلاقی تربیت پر بھرپور توجہ مبذول کی جارہی ہے جس کے اثرات بھی پھر دکھائی دیتے ہیں تاہم عصری علوم کے ادارے اب تربیت سے بیگانہ ہوکر رہ گئے ہیں یو ں تربیت سے محروم جو نسل سامنے آرہی ہے اس کانشانہ سب سے پہلے قریبی رشتے ہی بنتے ہیں اس لئے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ہمیں آج بھی سب سے زیادہ تربیت اور صرف تربیت ہی کی ضرورت ہے۔