زراعت: محتاج ِتوجہ

پاکستان میں سال 2019ء کے دوران 75لاکھ (7.5 ملین) ٹن چاول کی پیداوار ہوئی اور چاول کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا 10واں بڑا ملک قرار پایا تھا لیکن فروری 2020ء سے کورونا وباء کے ظاہر ہونے کے بعد صورتحال بالخصوص زرعی شعبے کی کارکردگی یکسر تبدیل نظر آتی ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ حالیہ چند برس کے دوران پاکستان سے چاول کی برآمدات اور پیداوار دونوں ہی متاثر ہوئی ہیں اور پاکستان کا ذکر جو پہلے چاول کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے سرفہرست 10 ممالک میں کیا جاتا تھا لیکن اب اِس کا تذکرہ فہرست کے دیگر اوراق میں ملتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ چاول کی پیداوار کا نصف سے زیادہ حصہ مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کو برآمد کیا جاتا رہا ہے اور عالمی سطح پر مختلف اجناس سے متعلق اعدادوشمار جمع کرنے والے ادارے ’سٹیٹسٹا (Statista.Com)‘ کے مطابق سال 2019-20ء کے دوران چاول کی زیادہ پیداوار اور برآمدات کرنے والے پہلے 10 ممالک چین (146.73)‘ بھارت (118.87)‘ انڈونیشیا (34.7)‘ بنگلہ دیش (34.7)‘ ویت نام (27.1)‘ تھائی لینڈ (17.66)‘ برما (12.7)‘ فلپائنز (11.93)‘ جاپان (7.61) اُور برازیل میں 7.6 ملین ٹن پیداوار ہوئی۔ پاکستان میں ہونے والی چاول کی کل پیداوار کا قریب ڈیڑھ (1.48) فیصد جبکہ گندم کی کل پیداوار کا قریب پانچ (4.53) فیصد حصہ خیبرپختونخوا سے حاصل ہوتا ہے۔ اِس لحاظ سے خیبرپختونخوا کے کھیت کھلیانوں سے چاول یا گندم کی دونوں اہم فصلوں کے حوالے سے کوئی بھی کمی بیشی بارے خبر خاصی اہم (توجہ طلب) ہوتی ہے۔رقبے کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کے سب سے بڑے ضلع چترال کے زریں علاقوں سے کاشتکاروں نے ’پشاور کے نام پیغام‘ بھیجا ہے کہ وہ اِس سال چاول کی بجائے سبزی کاشت کرنے کو ترجیح دیں گے۔ چترال میں پانی کی کمی نہیں اور جن علاقوں میں چاول سے بہترین آب و ہوا کی وجہ سے خاص قسم کے بہترین چاول کی پیداوار ہوتی ہے اگر اُس میں کمی آتی ہے تو اِس سے ملک کی مجموعی چاول کی پیداوار میں خیبرپختونخوا کی حصہ داری کم ہوگی جبکہ مقامی سطح پر دستیاب چاول کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی کیونکہ زرعی اجناس کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہوتا ہے کہ اِن کی وجہ سے مقامی افراد کی زراعت پر منحصر معیشت و معاشرت پر مہنگائی و دیگر منفی محرکات جیسا کہ کورونا وبا ء کی وجہ سے سفری پابندیوں وغیرہ کا دباؤ نہیں رہتا۔ جن ممالک کا انحصار مقامی طور پر زراعت پر نہیں تھا کورونا وبا ء کے سبب وہ زیادہ متاثر ہوئے جبکہ پاکستان جیسے زرعی ممالک کورونا وبا ء کی اگرچہ چوتھی لہر سے گزر رہے ہیں لیکن یہاں غذائی قلت کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔ اے کاش ہمارے فیصلہ ساز پاکستان کی زرعی حیثیت (ایگری کلچر پروفائل) کو خاطرخواہ گہرائی سے سمجھیں اور زرعی شعبے بالخصوص چھوٹے کاشتکاروں اور دور دراز کے اضلاع میں ہونے والی کاشتکاری کے لئے زیادہ مراعات کا اعلان کریں تو اِس سے حاصل ہونے والی پیداوار (نتائج) پائیدار ترقی کے ضامن اعشاریئے ہوں گے۔چترال میں محکمہ زراعت توسیعی کے ڈپٹی ڈائریکٹر سے منسوب بیان میں 350 کلومیٹر دور‘ پشاور میں موجود صوبائی فیصلہ سازوں کو مطلع کیا ہے کہ اِس سال ضلع چترال کے زریں علاقوں (ایون‘ دروش‘ اراندو‘ بروز اور کوغوزی) میں چاول کی کاشت غیرمعمولی طور پر کم ہوئی ہے۔ مذکورہ سبھی علاقے چاول کی کاشت اور عمدہ ذائقے و منفرد خوشبو کے لحاظ سے بہترین (معیاری) چاول کی پیداوار کے لئے عالمی سطح پر شہرت رکھتے ہیں۔ خاص نکتہ یہ ہے کہ زرعی توسیع (و ترقی) کے صوبائی محکمے کی جانب سے یہ اطلاع بذریعہ محکمانہ خط و کتابت نہیں دی گئی بلکہ اِس کے لئے ذرائع ابلاغ کا سہارا لیا گیا ہے‘ جسے سوشل میڈیا کی توجہ بھی حاصل ہوئی ہے،ایک مرتبہ پھر یہ تلخ حقیقت عیاں ہوئی ہے کہ فصلوں کے پیداواری اخراجات اِس قدر زیادہ ہو چکے ہیں کہ زراعت اب منافع بخش کام نہیں رہا۔ اگرچہ چترال کے کاشتکاروں نے چاول کے متبادل سبزی کا انتخاب کیا ہے لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ سبزی کی پیداوار بھی زیادہ منافع بخش نہیں رہی اور اکثر سبزی اِس قدر بے قیمت ہو جاتی ہے کہ کاشتکار اِسے منڈی تک لیجانے کے ترسیلی اخراجات اُور محنت و مشقت یا خطرہ برداشت کرنے کی بجائے اِنہیں کھیتوں ہی میں گلنے سڑنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں! ضلع چترال کی بات کی جائے تو وہاں کی بہترین آب و ہوا میں قدرتی طور پر (آرگینک) پھل سبزی کی اہمیت دیگر پہاڑی یا میدانی علاقوں کی نسبت زیادہ ہے لیکن اِس سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا رہا۔تیس سال قبل چترال کے زریں علاقوں سے تعلق رکھنے والے 80فیصد کاشتکار چاول کاشت کیا کرتے تھے جس سے اُن کی مقامی ضروریات پوری ہونے کے علاوہ انہیں فروخت کرکے اچھا خاصا منافع بھی کمایا جاتا تھا اور یوں علاقے کی نظرانداز ترقی کے باوجود وہاں کے لوگ زراعت کے بل بوتے پر اپنی معیشت و معاشرت میں توازن قائم کئے ہوئے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ چاول کی کاشت 18 ہزار ہیکٹرز تک محدود ہو چکی ہے جس سے حاصل ہونے والے چاول کی زیادہ سے زیادہ مقدار بھی پانچ ہزار میٹرک ٹن ہوگی اور اِس کمی کے باعث چترال و مالاکنڈ ڈویژن کے ملحقہ اضلاع میں دستیاب چاول کی مقدار کم ہو گی جبکہ مانگ زیادہ رہے گی اور اِس وجہ سے چاول کی قیمتیں بڑھیں گی‘ جس سے چاول متوسط اور غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائے گا۔ ضلع چترال وقت کی رفتار سے زیادہ تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے لیکن اِس تبدیلی کا خاص پہلو‘ یہ ہے کہ اِس میں موجود وسائل اور قدرت کی نعمتوں پر انحصار کم ہو رہا ہے۔ زراعت کو خاطرخواہ توجہ نہ ملنے کی وجہ سے قومی اور صوبائی مسائل میں اضافہ ہوگا‘ جس کے لئے پہلے سے ذہنی طور پر تیاری کر لینی چاہئے۔ واقعی خیبرپختونخوا کی جنت نظیر سرزمین اور یہاں کی زرخیز مٹی میں چھپے زراعت کے لاتعداد امکانات ”محتاج ِتوجہ“ ہیں!