نیا ایران۔۔۔۔۔

جمہوری اسلامی ایران کے نومنتخب صدر ابراہیم رئیسی نے بطور صدر 3 اگست عہدے کا حلف اُٹھایا ہے جس کے ساتھ ایران میں ایک ’نئے دور‘ کے آغاز کا چرچا ہے۔ نئے صدر کے متعلق ایرانی عوام اور اندرون ایران تجزیہ کاروں کی توقعات ہیں کہ وہ شخصی آزادی‘ صحافتی آزادی (اظہارِخیال)‘ انسانی حقوق کی پاسداری اور عالمی تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں گے لیکن حقیقت کے جس ایک پہلو کو فراموش کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ساٹھ سالہ رئیسی کی ذاتی اور سیاسی ترجیحات نہیں اور اُنہیں ایران کے رہبر ِمعظم آیت اللہ سیّد علی خامنہ ای کا قریبی ساتھی (ہم خیال) کے طور پر ’انقلاب دوست‘ دیکھا جاتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ صدراتی انتخابی مہم کے دوران رئیسی نے خود کو بدعنوانی سے نمٹنے اور ایران کے سبکدوش ہونے والے صدر حسن روحانی کے دور میں درپیش اقتصادی مسائل کے حل کیلئے بطور متبادل پیش کیا تھا۔ صدر بننے سے قبل وہ ایران کی اعلیٰ عدلیہ (جسے سپریم کورٹ کہا جا سکتا ہے) کے سربراہ رہے ہیں۔ صدر رئیسی کا تعلق ایران کے شمال مشرقی اور دوسرے بڑے شہر ’مشہد ِمقدس‘ سے ہے‘۔۔ صدر رئیسی کی انقلاب اسلامی میں شراکت نے علم دین کے حصول میں جدوجہد کے علاؤہ مغربی ممالک کے حمایت یافتہ شاہ ایران رضا پہلوی کے خلاف مظاہروں میں بھی حصہ لیا۔ ذہن نشین رہے کہ رضا شاہ پہلوی نے 16 ستمبر 1941ء کو ایران میں اپنی بادشاہت قائم کی جسے 11 فروری 1979ء کے روز ’انقلاب ِاسلامی کی کامیابی سے ختم کیا گیا اور شاہ ایران معزول ہونے کے بعد بیرون ملک فرار ہو گئے جہاں 27جولائی 1980ء (قاہرہ‘ مصر) اُن کا انتقال ہوا۔  صدر ریئسی انقلاب اسلامی کے حامی تھے اور انہوں نے پچیس سال کی عمر میں (انقلاب اسلامی کے بعد) عدلیہ میں شمولیت اختیار کی۔ اِس دوران وہ آیت اللہ خامنہ ای کے زیر تربیت بھی رہے۔ خامنہ ای 1981ء میں ایران کے صدر بنے۔ صدر رئیسی کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو مشہد ِمقدس میں آٹھویں (ہشتم) امام علی ابن موسی الرضا رضی اللہ عنہ (ولادت جنوری 766ء۔ شہادت جون 818ء) کے مزار پرانوار کی خدمت ہے جو وہ 2016ء سے 2019ء تک جملہ انتظامی امور کے نگران کی صورت سرانجام دیتے رہے اور آج بھی روضہئ اِمام رضا رضی اللہ عنہ پر خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں۔ آپ ایران کی سب سے اہم اور امیر ترین مذہبی تنظیموں میں سے ایک ’آستان قدس رضوی‘ کے نگہبان بھی رہے ہیں یہ عہدہ رہبر معظم (آیت اللہ خامنہ ای) کی جانب سے نامزدگی سے دیا جاتا ہے۔ مذکورہ تنظیم مشہد میں امام رضا کے مزار کے ساتھ اس سے وابستہ تمام مختلف فلاحی اداروں اور تنظیموں کا انتظام سنبھالتی ہے اور یہ تنظیم صرف مزار کی چاردیواری تک محدود نہیں بلکہ اِس کا ایران میں حکومتی تعمیراتی منصوبوں‘ زراعت‘ توانائی‘ ٹیلی کمیونیکیشن اور مالیاتی خدمات میں بڑا حصہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ صدر رئیسی ایران کی اُن 88 رکنی بااثر شخصیات پر مشتمل کمیٹی میں شامل (ڈپٹی چیئرمین) ہیں جنہوں نے ایران کیلئے اگلے رہبر معظم (سپریم لیڈر) کا انتخاب کرنا ہے۔بحیثیت عدلیہ کے سربراہ صدر رئیسی نے قانونی اصلاحات نافذ کیں جن کی وجہ سے ایران میں منشیات سے متعلق جرائم کیلئے سزائے موت پانے اور پھانسی کی سزا پانے والوں کی تعداد میں کمی آئی تاہم ایران اب بھی چین کے بعد کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ سزائے موت دی جاتی ہیں اور اِس ایک نکتے کو لے کر مغربی ذرائع ابلاغ اور حکومتیں ایران کے چہرے کو دنیا کے سامنے متنازعہ بنا کر پیش کرتی ہیں۔ عدلیہ نے سکیورٹی سروسز کے ساتھ مل کر دوہری شہریت رکھنے والے ایرانیوں یا غیر ملکی مستقل رہائشیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا ہوا ہے اور ایران میں دوہری شہریت رکھنا جرم ہے۔ امریکہ نے سال 2019ء کے دوران صدر رئیسی پر پابندیاں عائد کیں اور ان پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے سیاسی وجوہات کی بنا پر سینکڑوں بے گناہ افراد کی پھانسیوں پر انتظامی نگرانی کی جو مبینہ جرائم کے وقت کم عمر تھے اور یہ کہ وہ دوہزارنو کے متنازع صدارتی انتخابات کے بعد حزب مخالف کی گرین موومنٹ کی جانب سے احتجاج کے خلاف پر تشدد کریک ڈاؤن میں ملوث رہے ہیں۔ صدر رئیسی نے انتخابی ریلیوں میں خود کو کرپشن مخالف رہنما کے طور پر پیش کیا اور وہ شروع دن سے ایران میں ایک ایسے سیاسی و سماجی نظام کے حامی رہے ہیں جس میں انسانی حقوق کی پاسداری کو اہمیت اور بدعنوانی سے پاک طرزحکمرانی جیسی خوبیاں پائی جاتی ہوں۔ جب صدر رئیسی نے حالیہ صدارتی انتخابات کیلئے اپنے امیدوار ہونے کا اعلان کیا تھا تو اُس وقت اُنہوں نے کہا کہ وہ ”ایران کی مجلس عاملہ میں تبدیلیاں اور غربت‘ بدعنوانی‘ بدسلوکی اور امتیازی سلوک کے خلاف اقدامات کریں گے۔“