کوئٹہ سے پشاور۔۔۔۔۔۔

خوشخبری ہے کہ قومی ہوائی جہاز راں اِدارے ’پی آئی اے‘ نے کوئٹہ سے پشاور کیلئے پروازوں کو سلسلہ 12 سال بعد بحال کر دیا ہے۔ اِس سلسلے میں پہلی پرواز (فلائیٹ) چھ اگست کے روز کوئٹہ سے روانہ ہونے کے موقع پر تقریب کا اِنعقاد بھی ہوا جس سے بلوچستان کے پارلیمانی سیکرٹری برائے اطلاعات بشریٰ رند نے بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب میں اِس اُمید کا اظہار کیا کہ کوئٹہ پشاور کے درمیان ہوائی سفر کی بحالی سے سے دونوں صوبوں کے درمیان تجارت و سیاحت کو فروغ ملے گا۔“ بنیادی بات یہ ہے کہ کوئٹہ سے پشاور پرواز کو دو صوبائی دارالحکومت کے درمیان ہی نہیں بلکہ وفاق کی دو اکائیوں کے درمیان روابط کی بحالی کے طور پر دیکھا جانا چاہئے اور اِسی طرح پشاور لاہور راہداری پر بھی توجہ دینی چاہئے‘ جس پر سفر کرنے والوں کی اکثریت کیلئے زمینی راستہ استعمال کرنے کے علاوہ چارہ نہیں۔ پشاور اور کوئٹہ کے درمیان کم سے کم ہوائی فاصلہ جسے اصطلاحاً برڈ فلائی (bird-fly) فاصلہ کہا جاتا ہے 603.5 کلومیٹر ہے۔ کوئٹہ سطح سمندر سے 1682 میٹر جبکہ پشاور 340 میٹر بلند ہے لیکن اگر بذریعہ شاہراہ سفر کیا جائے تو پشاور سے کوئٹہ 850 کلومیٹر دور ہے اور اِسے مختلف شاہراؤں بشمول انڈس ہائی وے (N50 اور N55) کا استعمال کرتے ہوئے عبور کرنے میں 14 سے 16 گھنٹے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں بیس سے بائیس گھنٹے لگ جاتے ہیں جبکہ ہوائی جہاز کے ذریعے یہی فاصلہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے اور کسی مسافر کو پشاور میں اپنے گھر سے کوئٹہ شہر منزل تک پہنچنے میں کل چار سے پانچ گھنٹے سفر کرتا ہے جو نہ صرف وقت کی بچت ہے بلکہ اِس سے ہنگامی حالات میں رابطے بھی آسان ہو جاتے ہیں۔  یوں تو پاکستان میں کل 151 ہوائی پٹیاں (airfields) ہیں جن پر ہوائی جہاز اُتر سکتے ہیں یا اُڑان بھر سکتے ہیں ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ پشاور اور دیگر بڑے شہروں کے درمیان ہوائی رابطوں کو نفع و نقصان کی بنیاد پر نہیں بلکہ تجارتی و کاروباری نکتہئ نظر سے دیکھا جانا چاہئے کیونکہ جب بڑے شہروں کے تاجر و صنعتکار باآسانی سفر کریں گے تو اِس سے ایک ہی ملک میں سفری سہولیات میں اضافہ ہوگا جس کا ضمنی پہلو غذائی اجناس و دیگر اشیاء کی نقل و حمل بھی ہے۔ ثقافتی نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو فن تعمیر اور سجاوٹ کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے خوبصورت ائرپورٹ لاہور (LHE) ہے‘ جو شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ کے نام نامی سے منسوب ہے۔ عالمی سطح پر ہوائی سفر کو نظم وضبط کا پابند بنانے کے لئے 75 برس قبل (19اپریل 1945ء) کو ’انٹرنیشنل ائرپورٹ ایسوسی ایشن (IATA)‘ نامی تنظیم بنائی گئی جس کے فی الوقت 290 جہاز راں کمپنیاں اور 120 ممالک رکن ہیں اور اِس کا صدر دفتر کینیڈا میں ہے۔ پشاور اور کوئٹہ کے درمیان ہوائی سفر کیلئے ہفتے میں دو دو پروازیں مختص کی گئی ہیں جو ہر منگل اور جمعۃ المبارک پرواز کریں گی جو ایک گھنٹہ پنتالیس سے پچاس منٹ (نان سٹاپ) دورانئے کا ہوائی سفر ہوگا اور اکانومی کلاس میں سفر کا کرایہ سولہ ہزار نو سو دس روپے (تعارفی سولہ ہزار نوے روپے) رکھا گیا ہے۔ اِس سے قبل براستہ کراچی یا اسلام آباد پشاور کے مسافر کوئٹہ جاتے تھے اور اِس سفری عمل میں آٹھ سے دس گھنٹے سفر اور دو گنا کرایہ خرچ ہو جاتا تھا۔ توجہ طلب ہے پاکستان میں ہوائی سفر پر خطے کے ممالک کی نسبت زیادہ ٹیکس عائد ہے جو کہ 33 فیصد ہے جبکہ بھارت میں 22.5‘ سری لنکا 10.7فیصد‘ ایران 8.6 فیصد اور بنگلہ دیش میں ہوائی جہاز کا سفر کرنے والے مسافروں سے 7.3 فیصد ٹیکس لیا جاتا ہے۔ رواں مالی سال (2021-22ء) کے وفاقی بجٹ سے قبل ہوائی سفر پر ایکسائز ڈیوٹی و دیگر ٹیکسوں کی شرح پر غور کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اِس سلسلے میں خاطرخواہ پیشرفت نہیں ہوئی۔ کورونا وبا کی وجہ سے جہاں ہوائی سفر متاثر ہے اور قومی جہاز راں ادارے (پی آئی اے) جو کہ پہلے ہی خسارے کا شکار تھی لیکن بنا ہوائی سفر بھی ملازمین کی تنخواہیں و دیگر اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں تو اِس صورتحال میں اگر ٹیکسوں کی شرح کم کر کے ہوائی سفر کو سستا کرتے ہوئے اِسے عام آدمی کی پہنچ میں کیا جائے تو اِس سے ’ائر ٹریفک‘ میں یقینی اضافہ ہوگا۔ پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن نے سال 2020ء میں 6.8 ارب روپے خسارہ کیا جو گیارہ سال میں سب سے کم خسارہ بتایا گیا اور اگر ’پی آئی اے‘ کے مجموعی خسارے کی بات کی جائے تو یہ سال دوہزاربیس میں 33.7فیصد کم ہوا لیکن اب بھی لگ بھگ چھیاسٹھ فیصد خسارہ ہے تعجب کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے اندر (ڈومیسٹک) سفر کرنے کی صورت ’پی آئی اے‘ کا کوئی بھی جہاز خالی نہیں ملتا  ایک ایسا قومی ادارہ جو‘ ہر ماہ 2.1 ارب روپے خسارہ کا مؤجب صرف اِس وجہ سے ہے کہ اِس میں جہازوں اور مسافروں کے سفر کرنے کی تعداد کے عالمی تناسب سے زیادہ ملازمین رکھے گئے ہیں۔ پی آئی اے ملازمین کی موجودہ تعداد ساڑھے چودہ ہزار سے زیادہ ہے جبکہ اِس کے پاس کل 29 جہاز ہیں۔ ہر جہاز پر 250 افراد کا عملہ ہونا چاہئے لیکن یہاں تعداد 500 ملازمین فی جہاز سے زیادہ ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں قومی ائرلائنز کے جہازوں کی تعداد کے تناسب سے ملازمین کی تعداد انتہائی کم ہے جیسا کہ ترکی کے ہوائی جہاز راں ادارے میں فی جہاز 94 ملازمین‘ قطر میں 191‘ متحدہ عرب امارات  کی اتحاد ائرلائن 211 اور ایمریٹس 231 ملازمین فی طیارہ ہیں۔ ایسی صورت میں پاکستان کے پانچ سو سے زیادہ ملازمین فی طیارہ کا تناسب خسارے کی وجہ ہے حکومت نے پانچ ارب روپے مختص کر کے ’پی آئی اے‘ کو رضاکارانہ ’ریٹائرمنٹ قبل از وقت‘ کی پیشکش دسمبر دوہزاربیس میں کی تھی لیکن اِس کے اعدادوشمار تاحال جاری نہیں ہوئے کہ ’پی آئی اے‘ پر مسافروں سے زیادہ ملازمین کے اِس بوجھ کو کم کرنے میں کتنی مدد ملی ہے۔