خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور اور ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام ایبٹ آباد میں ’کورونا وبا‘ پھیلنے کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے 2 روز کیلئے کاروباری مراکز بند رکھنے اور اِس کے بعد (زیادہ سے زیادہ) رات آٹھ بجے تک کاروباری سرگرمیاں ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مذکورہ 2 روز اِس پابندی پر بڑی حد تک عمل درآمد دیکھنے میں آیا لیکن کاروباری مراکز رات آٹھ بجے ازخود بند ہونے کی بجائے مصروف بازاروں کے متعلقہ پولیس تھانے گشت کر کے دکانیں بند کرواتے ہیں اور اِس عمل میں آٹھ سے نو اور نو سے دس تک بج جاتے ہیں لیکن دکاندار‘ تاجر اور خریدار ’کورونا پابندیوں (SOPs)‘ پر خاطرخواہ سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں کر رہے اور یہی سب سے تکلیف دہ بات ہے کہ احساس ذمہ داری کا فقدان ہے۔ اصولاً شہریوں کیلئے (بطور تاجر‘ دکاندار اور خریدار) کورونا وبا کے اعدادوشمار ہی سب سے زیادہ اہم ہونے چاہیئں اور اگر حکومت کلی یا جزوی (سمارٹ) لاک ڈاؤنز (کاروباری اوقات میں تبدیلی) سے متعلق اعلان نہ بھی کرے تب بھی عوام کو اپنے معمولات میں تبدیلی لانی چاہئے کیونکہ پشاور اور ایبٹ آباد کے سرکاری و نجی ہسپتال کورونا وبا سے متاثرہ مریضوں سے بھر چکے ہیں جس کے باعث دیگر امراض کے علاج معالجے میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ محکمہئ صحت خیبرپختونخوا کے ایک اعلیٰ انتظامی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ”وسائل محدود ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ مسئلہ (کورونا وبا) ہر دن پہلے سے زیادہ سخت حفاظتی انتظامات و اقدامات کی متقاضی ہے جبکہ یہی صورتحال علاج معالجے کی زیادہ سہولیات مختص کرنے کا تقاضا بھی کر رہی ہے۔ فیصلہ سازوں کیلئے عملاً ممکن نہیں کہ وہ کسی ہسپتال میں موجود علاج معالجے کی تمام سہولیات صرف اور کورونا وبا کے متاثرین کیلئے مختص کر دیں اور اگر کر بھی دیا جائے تب بھی کورونا وبا کی علامات کے ساتھ ہسپتالوں سے رجوع کرنے والے تمام افراد کی توقعات پر پورا نہیں اُتر جا سکے گا۔ فی الوقت معیار نہیں بلکہ مقدار زیرغور ہے کیونکہ کورونا کی وبائی حالت میں جہاں حکومت اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے علاج معالجے کی زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنا چاہتی ہے وہیں نجی طبی ادارے بھی اپنی خدمات کا دائرہ وسیع کر رہے ہیں لیکن مسئلہ عام آدمی کی سوچ سے زیادہ بڑا اور سنجیدہ ہے جس کا خاطرخواہ سنجیدگی سے احساس نہیں کیا جا رہا۔“سیاسی حکومتوں کی سیاسی ترجیحات ہوتی ہیں۔ اُنہیں انتخابی سیاست کرنا ہوتی ہے جس کیلئے عوام پر زیادہ سختی نہیں کی جاتی۔ حکومت قوانین اور قواعد بناتی ہے۔ برسرزمین حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مالی وسائل مختص کرتی ہے۔ افرادی وسائل میں حسب ضرورت اضافہ کیا جاتا ہے لیکن یہ سبھی کوششیں ادھوری ہیں کیونکہ منصوبہ بندی کے مراحل میں موجودہ آبادی اور بڑھتی ہوئی آبادی کو مدنظر نہیں رکھا جا رہا بلکہ وقتی طور پر حالات سے نمٹنے کی تدابیر وضع کی جا رہی ہیں اور یہی وہ مرحلہئ فکر ہے کہ جہاں سیاسی فیصلہ سازوں کی رہنمائی غیرسیاسی فیصلہ ساز (اعلیٰ انتظامی عہدوں رپ فائز سرکاری ملازمین جنہیں افسرشاہی بھی کہا جاتا ہے) کر رہے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں اور معاون طبی عملے پر مشتمل ملازمین کی نمائندہ تنظیمیں حکومت کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھاتی ہیں اور نتیجے میں ایک ایسا بندوبست سامنے آتا ہے جس میں وقتی فیصلے اور وقتی طور پر اِن فیصلوں کے فوری نتائج پر اکتفا کر لیا جاتا ہے۔ ’کورونا وبا‘ جلد ٹلنے والی بلا (وبا) نہیں بلکہ یہ آئندہ کئی دہائیوں تک بھیس اور روپ بدل بدل کر وار کرتی رہے گی اور اِس سے متاثرین کا سلسلہ بھی اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک یہ نزلہ‘ کھانسی‘ زکام جیسے امراض پیدا کرنے والے جرثومے کی طرح بڑے پیمانے پر ضرر پہنچانے کی اپنی صلاحیت کھو نہیں دیتی۔ اِنسانی زندگی کیلئے یوں تو کئی بیماریاں خطرات ہیں جیسا کہ ذیابیطس (شوگر)‘ بلند فشار خون (بلڈپریشر) اور امراض قلب ’خاموش قاتل‘ کہلانے والے امراض میں شمار ہوتی ہیں اور اِن سے متاثر ہونے والوں کو مستقل علاج کے ساتھ معالجین سے رابطے میں بھی رہنا پڑتا ہے لیکن مذکورہ بیماریاں کسی ایک مریض سے دوسرے کو متاثر نہیں کرتی اور اِن میں پھیلنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے صرف متاثرہ شخص ہی ایک خاص حالت سے گزر رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اکثر اُس کی ذہنی و جسمانی اور سماجی فعالیت پر منفی اثرات ہوتے ہیں لیکن ’کورونا وبا‘ ایک ایسا خطرہ ہے جو کئی معلوم و غیرمعلوم وجوہات کی بنا پھر پھیلتی ہے اور کسی ایک علاقے سے ہوتی ہوئی زیادہ بڑی آبادی میں وبا کی صورت پھیل جاتی ہے‘ جیسا کہ ہمیں دنیا کے کئی ممالک اور اپنے اردگرد (پاکستان کے کئی شہروں میں) دکھائی دے رہا ہے۔خیبرپختونخوا میں کورونا وبا سے اب تک 68 معا لجین (ڈاکٹر) جب کہ 107 دیگر طبی معاونین ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں طبی و معاون طبی عملہ خوش قسمت تھا کہ کورونا جرثومے سے متاثر ہونے کے بعد انہوں نے خود کو الگ تھلگ (قرنطین) کیا اور صحت یاب ہو گئے۔ ڈاکٹروں کی نمائندہ صوبائی تنظیم (پراونشیل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن) صوبائی حکومت کے اقدامات سے مطمئن نہیں کیونکہ ڈاکٹروں اور معاون طبی عملے کو ایسے خصوصی لباس و لوازمات (PPEs) خاطرخواہ مقدار میں فراہم نہیں کئے جا رہے کہ جن کا استعمال کرتے ہوئے وہ کورونا کے عمومی یا زیادہ حد تک متاثرین کا علاج معالجہ کر سکیں۔ ڈاکٹروں کی تشویش اپنی جگہ لائق توجہ ہے جنہیں کورونا کی چوتھی لہر میں ایک نئے قسم کے جرثومے ’ڈیلٹا‘ سے واسطہ ہے اور اگرچہ اعدادوشمار دستیاب نہیں کہ خیبرپختونخوا میں ڈیلٹا وائرس کے متاثرین کی درست تعداد کتنی ہے لیکن اندیشہ ہے ڈیلٹا وائرس کہ جس کے پھیلنے کی شرح پہلی اقسام کے جرثوموں سے زیادہ ہے‘ آنے والے دنوں میں ایک ایسی ہنگامی صورتحال کو جنم دے گا‘ جس میں صرف تجارتی مراکز اور دفاتر ہی مکمل طور پر بند نہیں کرنا پڑیں گے بلکہ علاج گاہیں جو پہلے ہی ناکافی ثابت ہو رہی ہیں پر مریضوں کا بوجھ اگر مزید بڑھا تو ایسی کسی ممکنہ صورتحال سے ڈاکٹر خوفزدہ ہیں کیونکہ فیصلہ سازوں کی سیاسی و انتخابی ترجیحات اور عوام کے غیرذمہ دار رویوں کے باعث ’انسانی المیہ‘ دستک دے رہا ہے۔