محرم الحرام کیلئے تشکیل دیئے گئے خصوصی حفاظتی انتظامات (سیکورٹی پلان) کے تحت پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے یکم محرم الحرام (10 اگست) سے ’دفعہ 144‘ نافذ کر رکھی ہے مذکورہ خصوصی قانون کے اطلاق کے پہلے ہی روز خلاف ورزی کرنے والے 609 افراد کے خلاف قانونی کاروائی کی گئی ہے‘ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پشاور کی اکثریت اِن خصوصی اقدامات و انتظامات سے ناواقف ہے بصورت دیگر کوئی منطق سمجھ میں نہیں آتی کہ اِس قدر بڑی تعداد میں کوئی قانون کی خلاف ورزی کیوں کرے گا۔ پشاور کی تاریخ میں شاید اِس سے قبل کبھی بھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا ہوگا کہ ایک دن میں 600 سے زائد افراد کے خلاف ’دفعہ 144‘ کے تحت کاروائیاں کی گئی ہوں۔ سب سے زیادہ جرمانے گاڑیوں کے سیاہ شیشوں کی وجہ سے کئے گئے ہیں محرم الحرام کے دوران موٹرسائیکل کی ڈبل سواری‘ گاڑیوں کے سیاہ شیشے اور اسلحے کی نمائش پر پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ اصولاً اگر یہ جرائم ہیں تو اِن پر صرف محرم الحرام کے دوران ہی نہیں بلکہ سال کے دیگر ایام میں بھی پابندی کیوں عائد ہونی چاہئے؟ پشاور کو اسلحے سے پاک کرنے کی مہم کب چلائی جائے گی جبکہ یہاں ہوائی فائرنگ کی خلاف ورزی کرنے کے واقعات تواتر سے رونما ہوتے ہیں!؟حالیہ چند ہفتوں اور مہینوں کے دوران پولیس کے گشتی اہلکاروں اور ناکوں پر حملوں کے واقعات سے عیاں ہے کہ رواں برس (1443ہجری) محرم الحرام آسان نہیں جس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سنگین سیکورٹی چیلنجز درپیش ہیں۔پشاور کا محرم اور عزاداری خیبرپختونخوا کے دیگر حصوں سے مختلف‘ قدیمی اور روایتی ہے۔ یہاں وقت کی رفتار رکی ہوئی محسوس ہوتی ہے کیونکہ سینکڑوں برس سے جاری یہ ’اظہار ِعقیدت و پرسہ داری‘ ایک ہی ڈگر اور ایک ہی معمول پر چل رہے ہیں‘ جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ خانوادہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت و محبت رکھنے والے اپنی اپنی دنیاؤں میں رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے عقائد کو واجب الاحترام سمجھتے ہوئے حد سے تجاوز نہیں کرتے۔ یہی پشاور کا مزاج رہا ہے اور یہی پشاور کا خاصہ بھی ہے‘ جسے نظر لگ چکی ہے اور اِس نظر کو توڑنے (نظر ماتے) کی ضرورت ہے۔تاریخی طور پر پشاور میں 10محرم الحرام کی مناسبت سے ذوالجناح کا پہلا جلوس 1890ء میں نکالا گیا جو برطانوی حکومت سے حاصل کردہ خصوصی اجازت کے تحت تھا۔ یوں پشاور میں عزاداری بصورت جلوس برآمدگی کا آغاز قیام پاکستان سے قبل ہوا۔ 1890ء میں ایک ایرانی سفارتکار نے یہاں فارسی زبان کی مجالس متعارف کروائی تھیں اور ابتدا سے آج تک فارسی مجالس نہ صرف عشرے بلکہ اِس کے بعد چہلم امام تک خمسہ اور ہفتہ وار شب بیداریوں میں پڑھی جاتی ہیں۔ پشاور کا محرم کثیرالسانی ہے۔ یہاں فارسی کے علاؤہ‘ اردو‘ ہندکو‘ سرائیکی‘ پنجابی‘ کشمیری اور پشتو زبانوں میں مجالس کا انعقاد ہوتا ہے اور اِن کیلئے الگ الگ امام بارگاہیں (مقامات) مخصوص ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور سے ذوالجناح کا پہلا جلوس ’امام بارگاہ سیّد عالم شاہ‘ سے برآمد ہوا تھا جو آج تک باقاعدگی سے جاری ہے اور یوم عاشور (10محرم الحرام) صبح 9 بجے سے بوقت مغرب (دن ڈھلے) تک پشاور میں 14 جلوس مختلف امام بارگاہوں سے نکالے جاتے ہیں جو اپنے روایتی راستوں سے گزرتے ہوئے جن مقامات پر اختتام پذیر ہوتے ہیں وہاں شام غریباں کی محافل برپا ہوتی ہیں جو دیر رات تک جاری رہتی ہیں۔ علاوہ ازیں شام غریباں کے جلوس بھی برآمد ہوتے ہیں‘ جن کے اپنے روایتی لیکن مختصر راستے ہیں۔ یوم عاشور سے قبل 9ویں محرم کی شب نکالے جانے والے جلوس تمام رات سفر کرتے ہوئے آذان فجر پر اختتام پذیر ہوتے ہیں اور مذکورہ جلوسوں کی راہداریاں چونکہ مختلف ہوتی ہیں اِس لئے ہر جلوس کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں راستوں پر پولیس اہلکار نظر رکھتے ہیں۔ پشاور میں محرم الحرام کے پہلے عشرے کی خصوصیت یہ ہے کہ اِس میں ہونے والی جملہ عزاداری رات گئے شروع اور تمام رات جاری رہنے کے بعد دن کے آغاز پر ختم ہوتی ہے‘ جن کے شرکا کی آمدورفت کے باعث اندرون شہر کی گلی کوچوں میں بھی سیکورٹی اہلکار تعینات کرنا پڑتے ہیں اور حفاظتی انتظامات کا سب سے مشکل ترین اور مہنگا ترین حصہ ہے‘ جسے محفوظ و آسان بنانے کیلئے ضلعی اِنتظامیہ ’دفعہ 144‘ کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خصوصی اختیارات دیتی ہے لیکن اگر دفعہ 144 نافذ نہ بھی ہو‘ تب بھی نقص امن کے جملہ محرکات جیسا کہ نفرت انگیز و آمیز تحاریر و تقاریر‘ مسالک کی دل آزاری‘ وال چاکنگ‘ اسلحے کی نمائش‘ ہوائی فائرنگ اور گاڑیوں کے کالے شیشوں پر پابندی ہونی چاہئے۔محرم الحرام کے آغاز پر ’دفعہ 144‘ نافذ ہونے کا علم ہر خاص و عام کو نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ غیردانستہ خلاف ورزی ہو جاتی ہے جسے درگزر کرنا چاہئے کیونکہ موٹرسائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی غیرمتعلقہ علاقوں میں بھی نافذ کر دی جاتی ہے کہ جہاں محرم الحرام کی مناسبت سے کوئی تقریب یا جلوس نہیں ہوتا۔ ضلعی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس اہلکاروں کواِس لائحہ عمل پر نظرثانی کرنا ہوگی‘ صوبائی و ضلعی اور بلدیاتی فیصلہ سازوں کو حفاظتی اقدامات و انتظامات کے نتائج سے بھی سبق سیکھنا چاہئے کہ جس کی وجہ سے نفرت ختم ہونے کی بجائے یہ بذریعہ ’دفعہ 144‘ نفرت بڑھ رہی ہے۔ پشاور میں مختلف مسالک کے درمیان معاشرت و تعلقات کی تاریخ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں کے تاراج سکون کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ بھائی چارے اور مذہبی رواداری پھر سے عام کرنے کی ضرورت ہے‘ جسے سخت گیر حفاظتی انتظامات نقصان پہنچا رہے ہیں۔ تجویز ہے کہ عام آدمی کے نکتہئ نظر سے بھی دیکھا اور سوچا جائے کہ اسلامی سال کے پہلے مہینے (محرم الحرام) کا آغاز خوف و ہراس اور دہشت سے نہیں بلکہ یگانگت و محبت اور عقیدت کے اظہار سے کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔