بیرون ملک داخلے کے خواہشمند طلبہ۔۔۔۔۔

اندرون ملک تعلیم کے خاطرخواہ مواقع نہ ہونے کی وجہ سے ”بہ اَمر مجبوری“ بچوں کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کیلئے بھجوانے والوں کی پریشانیاں اور طلبہ کی مشکلات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں اور ایسے سینکڑوں طلبہ کا مستقبل بھی غیریقینی کا شکار ہے جن کے تعلیمی اداروں کی درجہ بندی اچانک تبدیل کر دی گئی ہے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن کی ویب سائٹ پر غیرملکی تعلیمی اداروں کی درجہ بندی کے مطابق تعلیمی اداروں کے نام‘ اُن کی اسناد اور ممالک کے ناموں پر مبنی جدول موجود ہیں جن کے مطابق ’پہلے درجے (کیٹگری اے)‘ میں 1011‘ دوسرے درجے (کٹیگری بی) میں 1812 اور تیسرے درجے (کٹیگری سی) میں 24 تعلیمی اداروں کے نام شامل ہیں۔ مجموعی طور پر یہ معاملہ 2847 غیرملکی تعلیمی اداروں کا ہے لیکن جو ایک بات بیان نہیں کی جا رہی وہ یہ ہے کہ ’کٹیگری بی‘ اور ’کٹیگری سی‘ کے کئی تعلیمی اِدارے ایسے بھی ہیں جہاں کاروباری ذہنیت رکھنے والوں نے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی ملی بھگت سے ذیلی ادارے قائم کر رہے ہیں اور یہ ادارے اِنہی تعلیمی اداروں کی چاردیواریوں یا اُن سے متصل عمارتوں میں قائم ہیں اور اِن کے نام بھی ملتے جلتے رکھے گئے ہیں جن کا فرق ایک عام آدمی بالخصوص طالب علموں کی اکثریت نہیں سمجھ پاتی۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر غیرملکی تعلیمی اداروں کے نام اور درجہ بندی جاری کی ہے‘ جس کی تفصیلات موجود نہیں کہ اگر کسی میڈیکل یا ڈینٹل کالج کو درجہ اول میں رکھا گیا ہے تو اِس کی خصوصیات کیا ہیں اور اِن کے مقابلے درجہ دوئم و سوئم کے کالجوں میں کن درسی و تدریسی سہولیات کی کمی ہے۔ پاکستانی طالب علموں کیلئے بیرون ملک میڈیکل کالجوں کی درجہ بندی اُن کی فیسوں کے لحاظ سے ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں فیس زیادہ جبکہ وسط ایشیائی‘ چین اور ایسے ممالک کے میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں ٹیوشن فیسیں نسبتاً کم ہیں جہاں انگریزی زبان بنیادی ذریعہئ تعلیم نہیں ہے۔بیرون ملک میڈیکل و دیگر ذرائع میں تعلیم کے عمل کو مربوط اور جامع بنانے کی ضرورت ہے جو خرابیوں کا مجموعہ ہے۔ وفاقی نگران ادارے کی جانب سے میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں داخلے کی اہلیت بارے طلبہ کی فہرستیں جاری کرنے کے بعد ساری توجہ اور افرادی و تکنیکی وسائل پاکستان کے اندر جامعات و کالجز میں داخلوں پر مرکوز ہو جاتی ہے جبکہ اندرون ملک داخلے سے محروم رہ جانے والوں کیلئے سوائے بیرون ملک داخلے حاصل کرنے کے سوا چارہ نہیں ہوتا اور اُنہیں جلد از جلد داخلہ حاصل کرنے کا فیصلہ و مالی ادائیگیاں بھی کرنا ہوتی ہیں تاکہ جس طرح پاکستان میں وہ باوجود خواہش و کوشش اور اہلیت کے بھی میڈیکل میں داخلہ حاصل نہیں کر سکے تو کہیں بیرون ملک داخلہ حاصل کرنے سے بھی محروم نہ رہ جائیں! اِسی جلدبازی میں درجہ اوّل‘ دوئم اور سوئم کے بارے میں سوچنے یا معلومات حاصل کرنے کی جانب توجہ مبذول نہیں ہوتی۔ اصولاً یہ بنیادی ذمہ داری ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ ہی کی ہے کہ وہ طلبہ کی اہلیت (میٹرک‘ انٹرمیڈیٹ اور خصوصی امتحان) کو مدنظر رکھتے ہوئے بیرون ملک داخلوں کے خواہشمند طلبہ کیلئے موزوں جامعات کی نشاندہی کریں اور اِس بات کو یقینی بنائیں کہ بنا میڈیکل کمیشن کی جانب سے اجازت کے کوئی بھی طالب علم بیرون ملک جامعات یا کالجز میں داخلہ نہ لے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے کوائف اور اُن کی تعلیمی سرگرمیوں پر بذریعہ سفارتخانے نظر رکھنا ممکن ہوگی بلکہ کسی ہنگامی حالت یا قدرتی آفت کی صورت میں پاکستان اپنے باشندوں کی مدد کرنے کیلئے بھی پہنچ سکے گا۔ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے فیصلہ سازوں کو بیرون ملک میڈیکل و دیگر شعبہ جات میں اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والوں کی تکالیف و مشکلات کا بھی کماحقہ احساس کرنا چاہئے جن حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت بمشکل مالی وسائل کا بندوبست کرکے اپنے بچے بچیوں کو بیرون ملک بھیجتے ہیں تاکہ وہ عملی زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہو سکیں۔ اِن پاکستانی طالب علموں کی اکثریت بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس آتی ہے اور اگر پاکستان واپس نہ بھی آئے تو ترسیلات زر کے ذریعے پاکستان کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے بیرون ملک تعلیم کے خواہشمند طلبا و طالبات اُور اُن کے والدین حکومت سے آسان شرائط پر ’تعلیمی قرض‘ بھی چاہتے ہیں تاکہ وہ بچوں کے تعلیمی اخراجات ادا کر سکیں لیکن اِس سلسلے میں ابھی بہت کام اور سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان میں میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں داخلوں کیلئے مختص نشستوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ ذہن نشین رہے کہ ہر خاص و عام تعلیم اور علاج معالجے کے معیار پر سمجھوتہ نہیں کرتا اور نہ ہی اچھے علاج اور اچھی تعلیم کے کسی ہاتھ آئے موقع کو جانے دیتا ہے۔ عوام کی اِس نفسیات اور طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے میڈیکل و ڈینٹل کالجوں سے متعلق قواعدوضوابط اور توسیع پر نظرثانی وقت کی ضرورت ہے۔