گزشتہ تیرہ دنوں سے چودہ اگست کو منانے کی تیاریاں گھروں اور گلی کوچوں سے لے کراخبارات، ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا پر محبت، عقیدت، دلجمعی اور پوری توانائی کے ساتھ جاری ہیں، چمکتے دمکتے خوبصورت چہروں والے چھوٹے بچوں کا جوش و خروش تو ماحول کو بہت حسین سا بنا دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر چھوٹے چھوٹے کلپس میں وطن عزیز کی خوشحالی اور ترقی کے لئے مزے مزے کے پیغامات کی صورت دلی جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔ جنہیں دیکھ کر یک گونہ طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ نئی نسل کے لا ابالی پن اور ان کی بے فکری کے حوالے سے بہت باتیں ہو تی رہتی ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے مشاغل بدل گئے ہیں سارا سارا دن وہ سیل فون ہاتھ میں لئے یہاں وہاں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور چونکہ ان سے پہلے کی نسل کے لوگوں میں سے بہت سوں کی دوستی اس ڈیوائس سے زیادہ نہیں ہے اس لئے انہیں یہ سب اچھا نہیں لگتا۔ میرے ایک شاعر دوست نے ایک جونیئر دوست کومشاعرہ میں سیل فون سے غزل پڑھتے ہوئے بہت ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ان کا خیال تھا کہ اس طرح مشاعرہ کا ”وقار مجروح“ ہوتا ہے، اس لئے غزل زبانی یا ڈائری سے دیکھ کر پڑھنا چاہئے، خیر وہ سیل فون کے استعمال کے شروعات کے دن تھے مگر اب تو کم کم شاعر ہی ڈائری سے پڑھتے ہیں زیادہ چلن اب موبائل فون سے شعر پڑھنے کا ہے۔ تب بھی میں نے کہا تھا کہ ہر نئی چیز کو اپنی جگہ بنانے کے لئے کچھ وقت چاہئے ہو تا ہے،کون جانے کل آپ بھی یہی کچھ کر رہے ہوں، گزشتہ کل خلائی جہاز اسپتک کی ایجاد پر معروف شاعر ساحر لدھیانوی نے ایک خوبصورت نظم ”مرے عہد کے حسینو“ کہی تھی جس کا اختتام ان چار مصرعوں پر ہو تا ہے
مرے ساتھ رہنے والو مرے بعد آنے والو
مرے دور کا یہ تحفہ تمہیں ساز گار آئے
کبھی تم خلا سے گزرو کسی سیم تن کی خاطر
کبھی تم کو دل میں رکھ کر کوئی گلعذار آئے
گویا ہر دور ہر زمانہ آنے والے عہد اور اس کے لوگوں کو کوئی تحفہ دے کر جاتا ہے، چونکہ کسی بھی عہد میں نئی پرانی دونوں نسلین ساتھ ساتھ چلتی ہیں اس لئے ان تحائف اور ایجادات سے مستفید ہونا دونوں کا حق ہے آپ کسی بھی چیز کو یہ کہہ کر مسترد نہیں کر سکتے کہ ہمارے زمانے میں تو یہ سب نہیں تھا۔ یا جیسا کہ پشتو روزمرہ ہے ”کہ یہ ہم کس زمانے کے لئے رہ گئے ہیں“ سو نئی نسل کی ان مصروفیات کی بنا ء پر ہم انہیں لا ابالی یا بے پروا نہیں قرار دے سکتے جو ہمارے دور میں نہیں تھیں یا ہم اب اس طرح مصروفیات نہیں اپنا سکتے، یہ کوئی نئی ایجادات تک محدود بات اس لئے نہیں ہے کہ گزشتہ کل بھی پرانی نسل کو اپنے بعد آنے والوں سے یہی شکوہ شکایات تھیں اور اس وقت بھی اسداللہ خان غالب کے ہم زبان بہت سے تھے یعنی
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لو گ انہیں کچھ نہ کہو
جومئے و نغمہ کو اندوہ و ربا کہتے ہیں
اس لئے مجھے بھی نئی نسل کے حوالے سے یہ سب سن کر اور پڑھ کر حیرانی نہیں ہو تی مگر یہ بھی طے ہے کہ جب بھی وطن عزیز پر کسی ابتلا کا وقت آیا ہے یا آفات و بلیات کا اسے سامنا کرنا پڑا ہے تو یہی لابالی غیر سنجیدہ نظر آنے والی نسل کی تشویش اور ان تھک کاؤشیں ایک نئی تاریخ رقم کرنے لگتی ہیں اور ہم نے تھوڑے ہی عرصہ میں سیلابوں اور زلزلہ کے متاثرین کی مدد کے لئے نئی نسل کے دوستوں کی انفرادی اور اجتماعی کوششیں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں، ان کی یہ صلاحیتیں مصیبت اور ابتلا کے دنوں میں دکھنے والی ہوتی ہیں،ممکن ہے کہ کہیں اس نسل کے دو ایک دوستوں میں یہ جذبہ نہ ہو یا وہ اپنے بزرگوں اور مجبوروں کا مذاق تک اڑانے سے بھی باز نہ آتے ہوں تو ان دو ڈھائی بد تہذیب لوگوں کے لئے پوری نسل کو مورد الزام لگانا بھی مناسب نہیں ہے سچی بات تو یہ ہے کہ اگر نئی نسل کو کسی کام کی ذمہ داری سونپی جائے تو ہمیشہ وہ بہترین نتائج دیتے ہیں۔ اس کا ایک تجربہ مجھے خود بھی ہوا ہے‘ سب جانتے ہیں کہ چھوٹے بچے ہر کام کو کھیل ہی سمجھتے ہیں اس لئے اگر انہیں کسی کام کا کہا جائے تو پہلے تو وہ انکاری ہو جاتے ہیں یا پھر ادھورا کام کر کے بھاگ جاتے ہیں میں نے ایک دن اپنے چار سالہ پوتے اشمان سے کہا کہ مجھے ذرا اخبار لا کر دو وہ بھاگ کر آیا اور اخبار میز پر جلدی میں کم و بیش پھینک کر واپس بھاگا اور اپنے کھیل میں مصروف ہو گیا۔جس کی وجہ سے اخبار زمین پر گر گیا میں نے مذاق میں کہا بیٹے اخبار نہیں لائے، کہنے لگا
میز کے نیچے پڑا ہے، میں نے کہا میں نہیں اٹھا سکتا۔ کہنے لگا۔ اپنا ہاتھ نیچے کریں اور اٹھا لیں۔ میں نے اپنے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے ہاتھ سے پکڑ کر نیچے کرتے ہوئے کہا کوشش کرتا ہوں مگر ہاتھ میں درد ہے،فوراً کہا۔ رکیں دادا! رکیں میں آ تا ہوں وہ آیا اخبار اٹھا کر دے دیا۔ اگر میں ناٹک نہ کرتا تو مجھے یقین ہے وہ کبھی نہیں آ تا۔ اس لئے اگر چند لمحوں کے لئے آپ سوشل میڈیا پر جائیں تو چودہ اگست کے حوالے سے نئی نسل کی بہت عمدہ ویڈیوز اور ٹک ٹاک آپ کو بہت سرشار کر دیں گی ایک چھوٹی سی ویڈیو اگست کے موسم کے اوائل ہی سے بہت وائرل ہو رہی ہے۔ جس میں صبح سویرے ایک جواں سال لڑکا گھر سے نکل کر جاتا ہے تو اس کا والد اس سے پوچھتا ہے کہ بیٹا چودہ اگست منانے کی تیاری کر لی ہے تو وہ کہتا ہے جی پاپا چودہ اگست بھی اور پندرہ اگست منانے کی تیاری بھی کر لی ہے۔ یہ بات میز پر ناشتہ پرونے والی خادمہ سن لیتی ہے وہ گھر پر اپنے شوہر کو بتاتی ہے کہ ڈاکٹر کا بیٹا تو پندرہ اگست منانے کی تیاری کر رہا ہے، اس کا شوہر نائی کی دکان پر بتاتا ہے اور پھر بات مونہوں نکلی کوٹھوں چڑھی پورا محلہ جان جاتا ہے کہ ایک نوجوان پندرہ اگست منائے گا جو انڈیا کا یوم آزادی ہے۔ اس لئے سب پندرہ اگست کی صبح کا انتظار کرتے ہیں کہ اس کو ایک عبرت ناک سزا دیں،پندرہ اگست کو وہ نوجوان صبح گھر سے نکلتا ہے چاروں طرف سے محلے کے لوگ آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ کر اسے گھیر لیتے ہیں ایک شخص پوچھتا ہے،کل تو تم نے چودہ اگست منائی ہے آج کیا منانے نکلا ہے؟؟ وہ نوجواں انتہائی اطمینان مگر دکھ بھرے لہجے میں جواب دیتا ہے جسے سن کر بے ساختہ آنکھوں میں دھواں بھر جاتا ہے اور چہرہ آنسوؤں سے تر بتر ہونے لگتا ہے سب محلے والے شرمندہ سے ہو کر ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگتے ہیں،اس نوجوان کی بات ایک ایسا سوفٹ میسج تھا جو اخبارات،ٹی وی ریڈیو اور کئی سیمینار‘مذاکروں، تقریروں اوراعلانات پر بھاری تھا۔ نئی نسل کے اس نمائندہ کردار کا جواب تھا کہ ”منا تو آج بھی چودہ اگست ہی رہا ہوں مگر کل چودہ اگست سر اٹھا کر منائی ہے اور آج سر جھکا کر مناؤں گا“ اتنا کہہ کر وہ کمر اور سر جھکا کرگلی میں گری ہوئے اور انہی لوگوں کے پیروں تلے آنے والی پاکستانی پرچم کی جھنڈیاں اور جھنڈے زمیں سے اٹھا اٹھا کر اور چوم کر اپنے بیگ میں بھرنے لگتا ہے۔
جو چاہتے ہو امر دل کی چاہتیں رکھنا
وطن کے نام ہی ساری محبتیں رکھنا