افغانوں کاالمیہ ۔۔۔۔۔۔

ایک بارپھر افغانستان میں آگ اورخون کاکھیل جاری ہے‘دونوں فریق کسی بھی طرح اپنے اپنے مؤقف میں لچک لانے کے لئے تیار نہیں‘ اشرف غنی خود کو منتخب صدر کہتے ہوئے استعفیٰ سے انکار کررہے ہیں تو طالبان موجودہ افغان سیاسی نظام کو بیرونی مسلط کردہ نظام قراردیتے ہوئے مسترد کررہے ہیں‘ان کامطالبہ ہے کہ افغان حکومت اقتدار ان کے حوالہ کرے‘انہی سطور میں کچھ عرصہ قبل سید فدایونس کی کتاب کے حوالہ سے کچھ امور کی نشاندہی کی تھی جن کاذکر موجودہ صورت حال کے تناظر میں ضرور ی کھائی دیتاہے‘سید فدا یونس کا نام افغان امور کے حوالہ سے کسی تعارف کامحتاج نہیں‘وہ طویل عرصہ تک افغانستان میں پاکستا ن کے لئے سفارتی خدمات انجام دیتے رہے‘ان کا افغانوں کے ساتھ رابطہ کئی دہائیوں پر مشتمل رہاہے‘انہوں نے سردار داؤ د کی بغاوت کابل میں اپنی آنکھوں سے دیکھی پھر داؤد کاقتل بھی ان کے سامنے ہوا ببرک کارمل کے عروج وزوال سے لے کر ڈاکٹر نجیب کی آمد اور پھران کے استعفے تک تمام حالات وواقعات کے گواہ رہے ہیں بعدازاں نجیب کے استعفے کے بعد مجاہدین کی آمدسے لے کر طالبان کی آمداور نجیب کے قتل تک وہ ان تمام مواقع پر افغانستان میں ہی موجود رہے‘یوں ان کو بجا طورپر افغان سیاسیات کانباض قراردیا جاسکتاہے مگر انہوں نے کبھی بھی اس کاڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر خود کو افغان امور کا ماہر قرار نہیں دیا‘یہاں تو یہ حال ہے کہ جو صاحب اگر کبھی ایک بار کابل کاچکر لگاآئے وہ بھی کل کو افغان امور کاماہر بن جاتاہے اور پھر ٹی وی چینلوں پربیٹھ کر اس طر ح بات کرتاہے کہ گویا افغانستان کے چپے چپے سے واقف رہاہو‘سیدفدایونس نے درجن بھرسے زائد تصانیف چھوڑی ہیں جن کا مطالعہ ہر شخص کے لئے بہت ضرور ی ہے جو افغان امور کے حوالہ سے حقائق کامتلاشی ہو‘سید فدایونس اپنی کتاب تھانے سے سفارت تک میں بھی کئی اہم حقائق سامنے لاچکے ہیں ساتھ ہی وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اتنا عرصہ گذارنے کے باوجودبھی میں افغانو ں کو صحیح طورپر پہنچاننے سے قاصرہوں اور اس اعتراف پر مجھے کو ئی ندامت بھی نہیں ہے یہ دراصل افغانوں کی متلون مزاجی اورخود مصنف کی خاکساری کا واضح اظہار ہے تاہم ایک جگہ انہوں نے ایک جملے میں ہی افغانوں کی ساری نفسیات سمودی ہیں‘لکھتے ہیں کہ افغان کبھی بھی آپس میں متفق نہیں ہوسکتے جب تک کہ کسی بیرونی حملہ آور کے خلاف نبرد آزما نہ ہوں گویا ان کا اتفاق صرف اس بات پرہے کہ دشمن کے خلاف ہم ایک ہیں اور آپس کے معاملات میں ہم الگ الگ ہیں انہوں نے ایک دلچسپ قصہ بھی نقل کیاہے جو انہوں نے کابل میں کسی سے سناتھا کہ سکندر یونانی جب دنیا فتح کرنے کے لئے نکلا تو کافی عرصہ اسے افغانستان کے علاقہ کاپیسا میں رکنا پڑا اس تاخیر پر والد ہ کو تشویش ہوئی تو بذریعہ خط بیٹے سے وجہ پوچھی سکندر نے مشاورت کے بعدچند افغان سرداروں کو اپنے وطن کی مٹی کی چندبوریوں کے ساتھ روانہ کیا اور والدہ کو لکھاکہ جو افغان سردارآرہے ہیں پہلے دن ان کی خو ب خاطر تواضع کرنے کے بعداگلے دن ان کو دعوت پربلا کر ان کے راستے میں انہی کے وطن کی مٹی بکھیر دیں جس کے بعدآپکو سارے سوالوں کا جواب مل جائے گا چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا‘دوسرے دن جب سارے سرداردعو ت کے لئے جارہے تھے تو ان کو اپنے وطن کی مٹی کی بو آنے لگی بس پھرکیا تھا آنکھوں میں خون اترآیاتلواریں میانوں سے نکل آئیں سردار ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہونے لگے،سرکٹنے لگے دم بھرمیں وطن کی مٹی ان خون سے سرخ ہوچکی تھی اس ایک جملہ اور ایک قصہ میں افغانوں کے مسائل و آلام کی وجہ چھپی ہوئی ہے پوری دنیا افغانوں کو ایک میز پر بٹھانے کے لئے کردار ادا کررہی ہے ہوناتویہ چاہئے کہ افغان خود ہی لویہ جرگہ کے ذریعہ اپنامسئلہ خود حل کرتے مگر بدترین نفاق ماضی کی طرح آج بھی پوری طرح سے موجود ہے اور کوئی بھی فریق ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں جس کے بعد اب خدشہ ہے کہ ایک بارپھر کشت وخون ہوگا اورپھر افغان قوم پرست بیرونی قوتوں کوذمہ دار ٹھہرائیں گے جبکہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش نہیں کریں گے‘ افغان حکومت اپنے لوگوں کوہلہ شیری دے رہی ہے تو طالبان مقدس جہاد کے نعرے بلند کرنے میں مصروف ہیں درحقیقت ہم پختونوں اورافغانوں کی سب سے بڑی بد قسمتی یہی رہی ہے کہ ہمیں ہماری بہادری کے افسانے سنا سنا کرپہلے مدہوش کردیا جاتاہے پھر جو چاہے ہم سے کام لے سکتاہے اورلیتارہاہے‘افغانوں کاالمیہ انیسویں صدی سے لے کرآج اکیسیویں صدی تک یہی رہاہے کہ عدم اتفا ق پر ہی متفق رہے ہیں‘عشروں وہاں اقتدار کے لئے کشت وخون ہوتا رہاہے جس کاسلسلہ اب بھی جاری ہے مگر الزام پاکستان پر عائدکرنے سے پہلے یہ نہیں سوچا جاتاکہ 1880ء سے لے کر 1947ء کے درمیان تک اقتدار کے لئے جو خانہ جنگیاں ہوئیں اورایک دوسرے کی گردنیں کاٹیں گئیں اس کا ذمہ دار کون تھا خدارا نئی نسل کو اصل حقائق جاننے دیں ان پر مرضی کی تاریخ مسلط کرنے کی کوشش مت کریں کہ ہمارے اور خودافغانستان کے مفادمیں یہی بہتر ہے اور آج بھی اگر افغانوں نے اپنی تاریخ سے سبق سیکھنے کی کوشش نہ کی تویہ ایک بہت بڑا المیہ ہوگا کیا ہی اچھاہو کہ مذاکرات کے ذریعہ انتقال اقتدار کاراستہ ہموارکیاجائے‘طاقت کے بل پرفیصلے کبھی دیرپا ثابت نہیں ہوتے۔