اکتوبر 2019ء میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تحلیل کر کے’’پاکستان میڈیکل کمیشن“ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نومبر 2020ء میں ’پی ایم سی‘ نے بیرون ملک تعلیمی اداروں کو تسلیم کرنے اور اُن کی تین درجہ بندیوں (کٹیگری اے‘ کٹیگری بی اور کٹیگری سی) سے متعلق فہرستیں جاری کیں۔ اِس کے علاوہ مشکوک (گرے لسٹ) اور ناقابل منظور (بلیک لسٹ) اداروں کی نشاندہی بھی کر دی گئی تاکہ نئے تعلیمی سال میں طلبہ اِن (گرے و بلیک لسٹیڈ) میڈیکل کالجوں میں داخلہ نہ لیں لیکن یہاں مسئلہ ان طلبا ء و طالبات کا ہے جو پہلے ہی بیرون ملک میں طب کے تعلیمی اداروں میں داخلے حاصل کر چکے ہیں اور فی الوقت بیرون ملک زیرتعلیم ہیں۔ ایسے طلبا ء و طالبات اور اُن کے والدین کے لئے ”نئی پریشانی (درد ِسر)“ مذکورہ درجہ بندی بنی ہوئی ہے‘ ٹھیکیداری نظام کی وجہ سے بیرون ملک زیرتعلیم طلباء و طالبات کا استحصال ہو رہا ہے۔ ایسے طلبہ اور اِن کے والدین یہ چاہتے ہیں کہ وہ دوسرے درجے (کٹیگری بی) یا تیسرے درجے (کٹیگری سی) کے تعلیمی اداروں سے درجہ اوّل (کٹیگری اے) کے کالجز میں داخلے منتقل کروائیں لیکن بیرون ملک کے کسی ایک کالج سے داخلہ کسی دوسرے (بہتر درجے کے) کالج میں منتقل کرنا اِس قدر آسان عمل نہیں‘ جس قدر دکھائی اور سنائی دیتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اکثر مذکورہ درجہ دوئم اور درجہ سوئم کے میڈیکل و ڈینٹل کالجزمیں داخلے بذریعہ ”تعلیمی ٹھیکیدار“ حاصل کئے جاتے ہیں۔وہ سبھی طلبہ اور والدین جو بیرون ملک کے دوسرے درجہئ دوئم (کٹیگری بی) یا درجہئ سوئم (کٹیگری سی) کے تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں اور چاہتے ہیں کہ مزید تعلیم کسی پہلے درجے (کٹیگری اے) کے کالج یا جامعہ سے حاصل کریں لیکن انہیں تعلیمی ٹھیکیدار (کنٹریکٹرز)‘ متعلقہ تعلیمی ادارے کی کاروباری ذہنیت اور بیرون ملک پاکستانی سفارتخانے کے اہلکاروں سے واسطہ پڑتا ہے جو اِن سے خاطرخواہ تعاون نہیں کر رہے اُور یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ اپنے تعلیمی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں! اِن طلبہ میں شامل وہ گروپ زیادہ پریشان ہے جو کورونا وبا ء کی تعطیلات یا کسی دوسری وجہ سے پاکستان آ چکا ہے اور یہاں سے اپنے داخلے منتقل کروانا چاہتا ہے لیکن نہ تو اُنہیں داخلے منتقل کرنے کے لئے درکار اسناد فراہم کی جارہی ہیں اُور نہ ہی بیرون ملک کے ویزے حسب سابق آسانی سے مل رہے ہیں تاکہ وہ واپس لوٹ کر داخلوں کا عمل مکمل کروا سکیں۔ جن طلبہ نے دوسرے درجے (کٹیگری بی) اُور تیسرے درجے (کٹیگری سی) میں داخلے حاصل کر رکھے ہیں اُن کے متعلقہ کالجز ویزا حاصل کرنے کے لئے دگنی قیمت (فی طالب علم 200 ڈالر) طلب کر رہے ہیں اُور یہ بات راز نہیں کہ سالانہ ٹیویشن فیس سے لیکر ویزا حاصل کرنے کی سند جاری کرنے تک ہر مرحلے میں تعلیمی ٹھیکیدار طلبہ سے وصول ہونے والی فیسوں کا نصف وصول کرتا ہے۔ بیرون ملک کے میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں زیرتعلیم طلبہ نے اِس ”مستقل پریشانی“ کا ”مستقل حل“ تلاش کرنے کے لئے وزیراعظم پاکستان سے بذریعہ ’سٹیزن پورٹل‘ رجوع کر رکھا ہے اور اِس سلسلے میں سرسری تذکرہ گذشتہ روز (تیرہ اگست) کو بعنوان ”بیرون ملک داخلے کے خواہشمند طلبہ“ شائع ہو چکا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے دفتر (سٹیزن پورٹل) کی جانب سے پشاور کے ایک طالب علم کی شکایت ’ڈپٹی کمشنر پشاور‘ کے دفتر کو بھی ارسال کی گئی ہے جبکہ یہ معاملہ صرف کسی ایک طالب علم کا نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ کا ہے‘ جن میں درجنوں چاہتے ہیں کہ اُن کا داخلہ بہتر یعنی پہلے درجے کے میڈیکل کالجز میں منتقل ہو جائے اُور اِس مقصد کے لئے وہ قواعد کے مطابق اضافی ادائیگیاں کرنے کے بھی تیار ہیں چونکہ اِس معاملے کا براہ راست تعلق ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ اُور ’دفترخارجہ‘ سے بھی ہے اِس لئے وزیراعظم کے دفتر (سٹیزن پورٹل) کو ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ اُور ’دفتر خارجہ‘ کے ذریعے بھی تحقیقات کروانی چاہئیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے دفتر (سٹیزن پورٹل) سے صرف ’ڈپٹی کمشنر پشاور‘ ہی کو نہیں بلکہ صوبائی حکومت سے بھی رائے طلب کرنی چاہئے کیونکہ یہ معاملہ صرف پشاور کا نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کا بھی ہے اُور پاکستان سے بیرون ملک طب (میڈیکل و ڈینٹل) کی تعلیم حاصل کرنے والوں میں اکثریت کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہوتا ہے۔ قابل ستائش ہے کہ ’تحریک انصاف‘ نے جس انداز میں عوام کی شکایات جاننے کے لئے متحرک و فعال نظام (سٹیزن پورٹل) متعارف کروایا ہے اُس کی کامیابی و افادیت کے لئے ضروری ہے کہ ہر درخواست کو ایک ہی طریقہ کار سے نہ دیکھا جائے بلکہ اگر پشاور یا کسی بھی دوسرے ضلع سے اگر کوئی درخواست موصول ہوئی ہے تو اِسے فوری طور پر متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے سپرد کرنے یعنی ایک دفتر سے دوسرے دفتر کی طرف اچھالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسا کرنے سے صرف وقت ضائع ہوتا ہے اور کوئی بھی ایسا قابل عمل حل نہیں نکلتا جس سے انفرادی یا اجتماعی طور درخواست گزاروں کو فائدہ ہو۔ لائق توجہ اَمر یہ ہے کہ پشاور کے کسی ایک درخواست گزار کے معاملے کو انفرادی حیثیت سے نہ دیکھا جائے بلکہ اُسے بیرون ملک طب کی تعلیم حاصل کرنے والے جملہ طلبا ء و طالبات کی جانب سے ایک اجتماعی مسئلے کے طور پر حل کرنے کی کوشش کی جائے اور اُن تمام چور دروازوں کو بند ہونا چاہئے جن کی وجہ سے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند پاکستانی طلبا ء و طالبات اور اِن کے والدین شدید ذہنی دباؤ سے گزر رہے ہیں۔