پڑوسی ملک افغانستان کے بیشتر صوبوں پر طالبان نے کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ بیس سال تک امریکہ اور نیٹو افواج سے تربیت حاصل کرنے والے افغان فورسز بغیر کسی مزاحمت کے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ طالبان نے دارالحکومت کابل کا محاصرہ کرلیا ہے۔متعدد یورپی ممالک نے افغانستان میں اپنے سفارتخانے بند کردیئے ہیں جبکہ افغانستان میں پھیلے ہوئے بھارت کے قونصل خانوں کو بھی تالے لگ چکے ہیں۔ فوجی انخلاء کے بعد چند دنوں کے اندر 34میں سے 25افغان صوبوں پر طالبان کا قبضہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ صدراشرف غنی کا اقتدار غیر ملکی افواج کی بیساکھیوں پر صرف کابل تک محدودتھا۔ افغان قیادت اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کیلئے افغانستان میں عدم استحکام کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا تی رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان کا افغانستان کے اندرونی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ پڑوسی ملک میں انتشار، خانہ جنگی اور عدم استحکام کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہورہا ہے۔ گذشتہ چالیس سالوں سے 35لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں رہائش پذیر ہیں مزید مہاجرین کا بوجھ اٹھانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ قومی سلامتی سے متعلق وزیراعظم کے مشیر معید یوسف نے جرمن ٹیلی وژن کو دیئے گئے انٹرویو میں پاکستان پر الزام لگانے اور ڈو مور کا مطالبہ کرنے والوں کو آئینہ دکھایا ہے۔ انہوں نے امریکہ اور افغانستان کی قیادت پر واضح کیا ہے کہ ناکامیاں افغانستان کے اندر ہیں۔ افغان حکومت کو سوچنا چاہئے کہ بیس سالوں تک غیر ملکی افواج سے تربیت حاصل کرنے والے جدید ہتھیاروں اور فضائیہ سے لیس افغان فورسز کی پے در پے پسپائی کی کیا وجوہات ہیں۔ افغانستان پر امریکہ نے اربوں ڈالر خرچ کئے وہ رقم کہاں خرچ ہوئی۔ پاکستان پر انگلیاں اٹھانا چھوڑ دیں، افغانستان کے بحران میں شروع ہی سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں تھا،پاکستان ہر اس عمل کا ساتھ دے گا جس میں افغان خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں طالبان پرپاکستان کے اثر و رسوخ کے لفظ کا استعمال غلط ہے۔ طالبان کو کسی تصفیے کیلئے تیار کرنے کا مطالبہ احمقانہ ہے۔افغان تنازعے کے سیاسی تصفیے کا خیال امریکہ، نیٹو اور کٹھ پتلی حکومت کو اس وقت کیوں نہیں آیا جبکہ ڈیڑھ لاکھ غیر ملکی افواج افغانستان میں تعینات تھیں۔افغانستان سے فوجی انخلاء کا فیصلہ پاکستان کا انتخاب نہیں تھا۔ اس لئے فوجی انخلاء کے نقصانات کی ذمہ داری بھی پاکستان پر عائد نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کو قربانی کے بکرا بنانے کا دور گذر گیا۔ جس ملک نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار انسانی جانوں اور 150 ملین ڈالر کا مالی نقصان اٹھایا، ساڑھے تین تا چار ملین افغان مہاجرین کا بوجھ اب بھی اٹھا رہا ہے، اسی کو مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔اور اس سے ڈو مور کا تقاضا کیا جارہا ہے۔ڈالروں کے انبار اور عسکری طاقت کے زغم میں افغانستان کو فتح کرنے والوں کو آج ہاتھ اٹھا کر اپنی ناکامی تسلیم کرنی چاہئے۔اگر وہ اپنی شکست تسلیم کرکے پاکستان سے مدد کی درخواست کریں تو پاکستان اس پر غور کرسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال نہ صرف اشرف غنی حکومت کی ناکامی ہے بلکہ یہ امریکہ اور بھارت کی پسپائی،سبکی اور بدترین شکست ہے۔ یہ پاکستان کے اصولی موقف اور بیرونی تسلط سے آزادی کے خواہش مند افغان عوام کی کامیابی ہے۔اسکے بعد بھارت کو پاکستان کے خلاف اپنی ناپاک سازشوں کی تکمیل کیلئے افغان سرزمین کو استعمال کرنے کی کبھی جرات نہیں ہوگی۔