توجہ طلب۔،۔۔۔

کورونا وبا کی چوتھی لہر کے پیش نظر پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے اِس مرتبہ یوم آزادی (چودہ اگست) سادگی سے منانے کے حکومتی فیصلے کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ جس کیلئے خصوصی قانون ”دفعہ 144“ کا سہارا لیتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ اِس مرتبہ 1: ’پریشر ہارن‘ نہیں بجائیں گے۔ 2: بنا سائلنسر (شور پیدا کرنے والے) موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کا استعمال نہیں کیا جائے گا اور 3: اونچی آواز میں سرعام موسیقی (ملی نغمے) بجانے پر پابندی ہو گی لیکن اِن تینوں اعلانات پر نہ تو سختی یا نرمی سے عمل درآمد کروایا گیا اور نہ ہی ممکنہ ہلہ گلہ کی روک تھام کیلئے پہلے سے تیاری کی گئی۔ دوسری طرف آزادی کے جشن کی آڑ میں آزادی منانے والوں نے ضلعی انتظامیہ کے اِن احکامات کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی‘ جس کا نتیجہ ایک ایسے طوفان ِبدتمیزی کی صورت ظاہر ہوا جو 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب کئی گھنٹوں تک جاری رہا اور اِس کے باعث ٹریفک کی روانی اور دیگر معمولات زندگی بھی متاثر ہوئے۔ عجیب و غریب منظرنامہ تھا جسے سوشل میڈیا (انٹرنیٹ پر منحصر سماجی رابطہ کاری کے وسائل) کا استعمال کرتے ہوئے ’براہئ راست‘ (فخریہ طور پر) نشر بھی کیا گیا‘  جذبات میں بہہ کر جن نوجوانوں نے ’دفعہ 144‘ کی پرواہ نہیں کی اور محرم الحرام کا تقدس بھی پائمال کیا ہے اُن کے مناظرسوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ لیکن جنہوں نے قانون و قواعد کی خلاف ورزی کی‘ اُن کے شناخت معلوم ہونے کے باوجود بھی اگر قانونی کاروائی نہیں کی جاتی تو اِس سے خود ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی ساکھ متاثر ہوگی۔یوم آزادی (چودہ اگست) کو شایان شان اِحترام (سنجیدگی) کے ساتھ بھی منایا جا سکتا تھا۔ ماضی میں جبکہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مذکورہ تین یا دیگر پابندیاں عائد نہیں کی جاتی تھیں تب بھی ٹریفک و شہری قواعد کے تحت مذکورہ تینوں کارستانیاں قابل سزا جرم ہونے کی وجہ سے متعلقہ تھانہ جات کے پولیس اہلکار کاروائیاں کرتے تھے لیکن اِس مرتبہ جبکہ محرم الحرام کی جانب توجہ بھی دلائی گئی اور دفعہ 144 نافذ کرکے خبردار بھی کیا گیا لیکن منچلوں کی بڑی تعداد ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ آزادی کی خوشی میں اتنا شور اُور دھواں پیدا کیا گیا‘ جس کی مثال اِس سے قبل نہیں ملتی۔ درحقیقت شعور اور شور میں صرف ایک حرف ’عین‘ کا فرق ہے اور یہی عین ”علم“ ہے کہ اگر یہ شعوری زندگی کا حصہ نہ ہو تو باقی صرف شور ہی بچتا‘ بجتا اور سنائی دیتا ہے۔چودہ اگست کے موقع پر پشاور کا ’جی ٹی روڈ‘ پر کھلے عام ’ون ویلینگ‘ کی گئی۔ تیزرفتار موٹرسائیکل سوار دیگر شہریوں کیلئے خوف کا باعث بنے اور لب سڑک ملی نغموں کی دھنوں پر رقص و ہلڑ بازی کی ایسی مثالیں قائم کی گئیں جو نہ صرف ایک عرصے تک یاد رکھی جائیں گی۔ مقام حیرت و افسوس ہے کہ قانون پر عمل داری کی صورتحال یہ ہو کہ پابندی کے باوجود گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر قدآور لاؤڈ سپیکرز باندھ کر نہ صرف قانون و سماجی قدروں بلکہ آزادی کا بھی مذاق اُڑایا جائے جس سے اہل پشاور کی اکثریت حیرت و صدمے سے دوچار رہی۔ جس ”آزادی“ کا جشن منایا گیا اُس کی سمجھ بوجھ اُور اُس کا بیانیہ منطق سے بالاتر ہیں۔ کیا پشاور کا کوئی ایک بھی حصہ ایسا ہے جہاں کے رہنے والوں کو پینے کا پانی معیار و مقدار کے لحاظ سے آلودگیوں سے پاک اور وافر مل رہا ہے؟ ایک ایسا شہر جس کے کئی گنجان آباد حصوں میں فضائی آلودگی خطرناک حد سے بھی زیادہ بلند حدوں کوعبور کر چکی ہے اور جہاں سانس لینا محفوظ نہیں رہا تو  کیا وہاں پر ان مسائل کے حل کیلئے شعور و آگہی کی ضرورت نہیں۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی ایک نعمت ہے اور اس گراں قدر نعمت کی قدر کرنا اور ان دنوں کو یاد رکھنا ضروری ہے جو ہماری قومی تاریخ میں اس حوالے سے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں تاہم ان دنوں کو منانا اور ان یادوں کو قائم رکھنے کیلئے کیا ایسا ہی ماحول پیدا کرنا ضروری ہے جس طرح گزشتہ دنوں دیکھنے میں آیا۔ کیا دوسروں کی جانوں سے کھیلنا اور ان کو خطرے میں ڈالنا ہی ان دنوں کو خاص بنا سکتا ہے اور کیا قوانین کی دھجیاں اُڑانا ہی اس دن کو منانے کیلئے ضروری ہے۔