محرم الحرام کے سلسلے میں پشاور ٹریفک پولیس کے خصوصی حفاظتی انتظامات (سیکورٹی پلان) پر عمل درآمد جاری ہے جس کے تحت پہلے چھ روز (یکم تا چھ محرم) کے دوران ٹریفک قواعد خلاف ورزیوں کے مرتکب 9406 افراد کو جرمانے کئے گئے ہیں اِن میں موٹرگاڑیوں کے شیشے کالے کرنے پر 737‘ موٹرسائیکل پر ایک سے زائد سواری کرنے والے 7191 اور تجاوزات کے مرتکب 1478 افراد کو جرمانے (چالان) کئے گئے جبکہ یہ تینوں مسائل اپنی جگہ موجود ہیں۔ محرم الحرام کے پہلے عشرے دس اگست (یکم) سے اُنیس اگست (یوم عاشور) تک شاہراؤں پر ٹریفک کو بلاتعطل رواں دواں رکھنے اور (خدانخوستہ) کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ٹریفک پولیس اہلکار پہلے سے زیادہ مستعد (چوکس) دکھائی دیتے ہیں اور ایسا صرف پشاور ہی میں نہیں ہو رہا بلکہ خیبرپختونخوا کے اُن سبھی (انتہائی حساس و حساس) اضلاع کے لئے بھی خصوصی سیکورٹی بشمول ٹریفک پلانز تشکیل دیئے گئے ہیں جہاں محرم الحرام کی مناسبت سے کسی بھی طرح کے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں تاہم آبادی کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کے بڑے مرکز پشاور کیلئے خصوصی ٹریفک قواعد لاگو کرنے سے موٹرسائیکل سواروں کو سب سے زیادہ مشکلات درپیش ہیں‘ کیونکہ ڈبل سواری پر عائد پابندی کا اطلاق شہر کے ساتھ پشاور کے دیہی (مضافاتی) علاقوں میں بھی کر دیا گیا ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ ٹریفک جو پشاور داخل نہیں ہوتی اور جو پشاور سے باہر کی راہداریوں (روٹس) کواستعمال کرتی ہے اُنہیں محرم سیکورٹی پلان سے الگ رکھنا چاہئے۔ اصولاً اندرون شہر کی حدود (نشترآباد سے شروع ہونے والے سٹی سرکلر روڈ تا شعبہ بازار‘ خیبربازار اور ہسپتال روڈ سے ہوتے ہوئے جی روڈ تک) میں موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد رہنی چاہئے جہاں محرم الحرام کی مناسبت سے مساجد و امام بارگاہوں اور چوراہوں پر دن کے آغاز سے اختتام اور رات گئے تک اجتماعات منعقد ہوتے ہیں اور خطرہ یہ ہے کہ موٹرسائیکل سوار دہشت گرد حملہ آور ہو سکتے ہیں کیونکہ اِس دو پہیوں کی سواری کے ذریعے شہر کے پُرپیچ گلی کوچوں سے گزرنا اور روپوش ہونا باآسانی ممکن ہے۔ اِسی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کیلئے اَندرون شہر کے گلی کوچوں میں آمدورفت پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے جبکہ موٹرسائیکل گشتی اور سفید کپڑوں میں تعینات اہلکاروں کی تعداد میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے اور مذہبی اجتماعات کی راہداریوں یا ملحقہ علاقوں میں مساجد میں پولیس اہلکار مستقل تعینات کر دیئے گئے ہیں جو دن رات مساجد کے اندر قیام کرتے ہیں تاکہ اِن مساجد کا دہشت گرد استعمال نہ کر سکیں۔ مجموعی طور پر محرم الحرام کیلئے حفاظتی انتظامات ماضی کے تجربات (واقعات) کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیئے جاتے ہیں جو نہایت ہی دانشمندانہ طرزعمل ہے لیکن اِن پابندیوں کا اطلاق غیرمتعلقہ علاقوں پر کرنے سے عوام بالخصوص متوسط و غریب طبقات کو پریشانی ہوتی ہے‘ جن کی معیشت و معاشرت پہلے ہی کورونا وبا سے متاثر ہے۔ صوبائی سطح پر سیکورٹی سے متعلق فیصلوں کے اطلاق کی منظوری دیتے ہوئے ’ذہانت‘ سے بھی کام لینا چاہئے۔ محرم الحرام کے دوران قیام امن اور مذہبی رواداری کیلئے کوششیں کرنے والوں کی تمام توجہ اور توانائی اندرون شہر پر مرکوز ہوتی ہے جبکہ بیرون شہر کے لوگ سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں تو یہ صورتحال متقاضی ہے کہ حفاظتی انتظامات کو سخت سے سخت گیر بناتے ہوئے اُن علاقوں کو استثنیٰ دیا جائے جہاں محرم الحرام کی نسبت سے خصوصی اجتماعات نہیں ہوتے۔آٹھ محرم الحرام پشاور شہر اور چھاؤنی کی حدود میں مجموعی طور پر 20‘ نو محرم الحرام کے دن یوم عاشور کی فجر تک 19 اور دس محرم الحرام دس بجے سے دن کے اختتام (مغرب تک) 12 ماتمی جلوس مختلف امام بارگاہوں سے برآمد ہوتے ہیں‘ جو اپنے مقررہ اور روائتی راستوں سے گزرتے ہوئے واپس پہنچ کر اختتام پذیر ہوتے ہیں اور چونکہ ہر جلوس کا سفر کم سے کم تین اور زیادہ سے زیادہ پانچ گھنٹے دورانیئے پر مشتمل ہوتا ہے اِس لئے سیکورٹی کا حصار صرف جلوس کی گزرگاہوں پر ہی نہیں بلکہ اندرون شہر کے ساتھ بیرون شہر کے غیرمتعلقہ حصوں پر بھی نافذ کر دیا جاتا ہے۔ محرم الحرام کے انتہائی مصروف پہلا عشرہ (دس دن) کا اختتام بھی آسان نہیں ہوتا اور یوم عاشور کے جلوس ختم ہونے کے بعد 6 مقامات پر ’شام غریباں‘ کی مجالس منعقد ہوتی ہیں‘ جن سے قبل 3 جلوس محلہ نوبجوڑی (اندرون کوہاٹی گیٹ)‘ کچھی محلہ (اندرون لاہوری گیٹ) اور حسینہ سٹریٹ (اندرون ہشت نگری گیٹ) بھی الگ سے برآمد ہوتے ہیں۔ آٹھ سے دس محرم الحرام (تین دن) کے یہ حفاظتی انتظامات غیرمعمولی ہوتے ہیں‘ جہاں ہر طرف پولیس کے باوردی اور مسلح پولیس اہلکار چاک و چوبند تعینات دکھائی دیتے ہیں۔ سات سے دس محرم کا عرصہ مشکل ترین تصور ہوتا ہے کیونکہ اِس میں چوبیس گھنٹے کہیں نہ کہیں سیرت ِامام عالی مقام و دیگر شہدائے کربلا یا واقعات ِکربلا کے بیان سے متعلق مختلف مسالک کے اجتماعات ہو رہے ہوتے ہیں اور ہر یادآوری کی محفل کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے‘ جو معمولی ذمہ داری نہیں۔ ٹریفک کو رواں دواں رکھنے سے لیکر‘ حفاظتی حصار اور سماج دشمن عناصر کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے تک ہر درجے کے پولیس اہلکاروں پر دباؤ رہتا ہے‘ جسے کم کرنے کے لئے اگر محرم الحرام کے علاوہ سال کے دیگر گیارہ مہینوں میں منصوبہ بندی سے کوششیں کی جائیں تو اِس سے پشاور میں مثالی امن و امان وہ سنہرا دور لوٹ کر آ سکتا ہے‘ جب محرم الحرام کے پہلے عشرے کے دوران تجارتی مراکز‘ بازار اور راستے بند نہیں کئے جاتے تھے۔ ٹریفک و کاروباری سرگرمیاں معمول کے مطابق بحال رہتی تھیں۔ ڈبل سواری پر پابندی اور موبائل فون سروسزمعطل بھی نہیں کرنا پڑتیں تھیں اور اِس اخوت بھرے ماحول میں بھائی چارہ پروان چڑھتا تھا۔ آج پشاور کی صورتحال یہ ہے کہ محرم الحرام کا آغاز ہونے سے قبل ہی خوف و ہراس پھیل جاتا ہے‘ جو محرم کی نسبت و خصوصیت بن چکی ہے۔ حفاظتی انتظامات کے ساتھ حالات کو معمول پر لانے کیلئے بھی چھوٹی چھوٹی کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ پشاور کو اُس کا روایتی بھائی چارہ‘ سلوک‘ احسان و ایثار جیسی خوبیاں واپس دلائی جا سکیں۔