ستائیس ستمبر 1996کی بات ہے افغان دارلحکومت کابل بھی نئی ابھرتی ہوئی قوت طالبان کے سامنے سرنگوں ہوجاتاہے چند طالبان اقوام متحدہ کے کمپاؤنڈ کارخ کرتے ہیں اور کسی عالمی ضابطے کی پروا کیے بغیر وہاں محصور سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ اور ان کے بھائی کو زبردستی وہاں سے نکالتے ہیں پھردونوں کو کھلی شاہراہ پر پھانسی پر چڑھادیتے ہیں اسی پر بس نہیں کیاجاتا بلکہ نعشوں کی بے حرمتی بھی کی جاتی ہے دونوں نعشوں کے منہ اورہاتھوں میں سگریٹ ٹھونس دیئے جاتے ہیں بعض عینی شاہدین کایہ بھی کہناتھاکہ ڈاکٹر نجیب کو جیپ کے پیچھے باند ھ کرگھسیٹا بھی گیا اس سے کچھ عرصہ قبل کابل سے باہر چہار آسیاب کے علاقہ میں مبینہ طورپر اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے عبدالعلی مزاری بھی طالبان کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں یو ں طالبان کے دور حکومت کاآغازخونریزی اور خونخواری سے ہوتاہے پھر بازارمیں آنے والی برقع پوش خواتین پر جوبہیمانہ تشدد کیاجاتاہے اس کی ویڈیو زپوری دنیا میں آگ لگادیتی ہیں ٹیلی وژن سٹیشن بند اور لڑکیوں کی تعلیم حرام قراردی جاتی اوریہی وجہ تھی کہ اگلے پانچ برس تک پھر سوائے پاکستان،سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات کے دنیاکے کسی اور ملک نے طالبان حکومت کوتسلیم نہیں کیا اگرچہ بعد ازاں پانچ سال کے دوران طالبان کے دور حکومت میں مثالی امن قائم رہا اور سب سے بڑھ کریہ کہ ملاعمر کے حکم پر افغانستان میں پوست کی کاشت اورافیون کی تیاری تقریباً کچھ اس طرح ختم ہوئی کہ خود اقوام متحدہ تک نے اپنی رپورٹوں میں حیرت کااظہار کیا پھرامریکہ افغانستان پرحملہ آورہو ا طالبان اقتدارسے محروم ہوگئے کچھ پہاڑوں میں روپوشی کی زندگی گذارنے لگے توکچھ کیلئے زندانوں کے دروازے کھل گئے ابتلاء و آزمائش کاایک طویل دور شروع ہوا طالبان بدترین عالمی تنہائی کاشکارہوچکے تھے پوری دنیا میں کوئی بھی ان کاہمدر دوغمگسار نہیں رہاتھا اورپھرانہی بیس سال کے دوران وہ ایک ایسے ارتقائی عمل سے گذرے کہ اب ہمارے سامنے ان کاایک اورروپ دکھائی دے رہاہے دنیا کو یاد ہے کہ جب ڈاکٹر نجیب نے استعفیٰ دیا اورکابل پر افغان مجاہدین کے مختلف دھڑے چڑھ دوڑے تو کابل کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی وہ لوٹ مارہوئی کہ قرون وسطیٰ کی جنگوں کی یاد تازہ ہوگئی کسی کو اورکچھ نہ ملا تو سرکاری عمارت کے دروازے اکھاڑ کرلے گئے چنانچہ جب طالبان بیس سال بعد کابل کے دروازوں پر دستک دینے لگے تو لوگوں کے سامنے افغان مجاہدین کے دور کی لوٹ مار اور خود طالبان کے ہاتھوں ڈاکٹرنجیب کے ساتھ بہیمانہ سلوک گھومنے لگا پریشانی اورمایوسی تو تھی ہی اب خوف نے لوگوں کا خون خشک کرناشروع کردیا تھاچنانچہ کوشش کی جانے لگی کہ کسی نہ کسی طرح سے کابل سے راہ فرار اختیار کی جائے کیونکہ محض چند گھنٹے قبل تک کابل کا دفاع ناقابل تسخیرہونے کادعویٰ کرنے والا اشرف غنی نوٹوں سے بھرے بیگوں اور اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ فرارہوچکاتھا اس کو بزدلی کے طعنے دینے والے وزیردفاع بھی چند گھنٹے بعد رفو چکرہوگیا تھا لہٰذا عام لوگوں کاخوف بے معنی نہ تھا تاہم عالمی برادری نے عجب تماشادیکھاطالبان نے پہلے تواعلان کیاکہ کابل میں داخلہ کیلئے لڑائی نہیں کریں گے بلکہ مذاکرات سے کام لیں گے ساتھ ہی ان کی طرف سے سب کیلئے عام معافی کااعلان کردیاگیا سرکاری ملازمین کو اپنی اپنی ڈیوٹیاں جاری رکھنے کی تاکید کی گئی پھرطالبان جب کابل میں داخل ہوئے تو نہ تو ٹیلی وژن سٹیشن بندہوا نہ ہی ٹی وی سیٹ جلائے گئے نہ ہی گاڑیوں سے موسیقی سننے کے آلات نکالے گئے حتیٰ کہ طالبان نے خواتین میڈیکل سٹوڈنٹس اور لیڈی ڈاکٹروں کے ساتھ ملاقات کرکے ان کو نہ صرف تحفظ کی یقین دہانی کرائی بلکہ اپناکام جاری رکھنے کی درخواست بھی کی اورتو اور افغان نجی ٹی وی چینلوں نے خواتین اینکرز کے ساتھ نہ صرف اپنی نشریات معمولی تعطل کے بعد بحال کردی ہیں بلکہ طالبان رہنماؤں نے خواتین اینکرزکو انٹرویوز بھی دیئے ہیں یہ ارتقائی عمل کا بہت بڑاثبوت ہے اس سے قبل طالبان نے قندہار میں اپنے بدترین دشمن سابق افغان صدرحامد کرزئی کامحل قبضہ میں لیا تو کسی قسم کی لوٹ مار نہ ہوئی پھر ہرات میں کمانڈراسماعیل نے ہتھیار ڈالے تواسے مکمل عزت دی اور اس کے گھر کو محفوظ رکھا اورسب سے بڑھ کر ہزاروں طالبان کو بے دردی کے ساتھ شہید کرنے والے دوستم کے محل کی ویڈیوزدیکھی جاسکتی ہیں کہ کس طرح اس کی ایک ایک چیزمحفوظ رہی ہے طالبان نے جو بھی علاقہ فتح کیاوہاں نہ صرف امن وامان قائم رہا بلکہ لوٹ مار کاسختی کے ساتھ تدار ک بھی کیاگیا وگرنہ خطرہ یہی تھاکہ گذشتہ بیس برس کے دوران اربوں ڈالر کی لاگت سے جو نیا کابل سامنے آیاہے وہ چنددنوں میں ملیا میٹ ہوجائے گا ہزاروں بے گناہ شہری مارے جائیں گے کابل کے گلی کوچے لاشوں سے اٹ جائیں گے ہرجگہ خونریزی ہوگی مگر اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس قدر بڑے واقعہ یعنی سقوط کابل کے بعد اب تک جو آٹھ اموات ہوئی ہیں ان میں سے پانچ توائر پورٹ پربھگدڑ قابو کرنے کیلئے امریکی فوج کی فائرنگ کی وجہ سے ہوئیں جبکہ تین افراد طیارے سے گرنے کی وجہ سے جاں بحق ہوئے یوں بیس سال کے ارتقائی عمل کے نتائج کھل کرسامنے آرہے ہیں بہت سے لوگوں کو تکلیف اس بات کی ہے کہ کابل میں کشت وخون کیوں نہیں ہوااوریقیناان لوگوں کی تکلیف سمجھ میں آنے والی ہے مگر خود کو عالمی برادری کے ساتھ چلنے کیلئے تیار طالبان اب اکیسویں صدی کے تقاضوں کاادرا ک کرچکے ہیں اس لیے پہلی بارافغانستان اس قدر پرامن انداز میں فتح ہوا۔ سوائے ہلمند کے کچھ حصوں کے کہیں سے بھی بڑی لڑائی اور بڑے جانی نقصان کی اطلاعات موصول نہیں ہوسکی ہیں جس کے بعد اب امید رکھی جاسکتی ہے کہ افغان دھڑے باہم مل بیٹھ مستقبل کے نظام حکومت کے حوالہ سے فیصلے خود کرلیں گے کیونکہ طالبان نے تاحال کسی قسم کے نظام حکومت کے نفاذ کااعلان نہیں گویا وہ یہ مرحلہ مشاورت سے طے کرناچاہتے ہیں اوراگرایسا ہوتاہے تواسی میں سب کی کامیابی پوشید ہ ہے۔