اِنتخابات و اِصلاحات۔۔۔۔۔۔۔۔

وفاقی وزارت برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے الیکشن کمیشن کے ذمہ داروں کو ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے متعلق بند کمرے میں ’عملی مشق دیا گیا جو اِس سے قبل وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کے اراکین کو دیا جا چکا ہے تاہم الیکشن کمیشن کی جانب ووٹنگ مشینوں کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا گیا اور جو سفارشات تجویز کی گئیں اُن سے متعلق ’اِن کیمرہ ڈیمو‘ دینے کے لئے وزارت ِسائنس و ٹیکنالوجی کی ٹیکنیکل ٹیم کے ساتھ وفاقی وزیر شبلی فراز‘ سیکرٹری اور دیگر معاونین بھی اِس موقع پر موجود تھے جنہوں نے الیکشن کمیشن حکام کو ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں‘ کی خصوصیات سے متعلق ویڈیو دکھائی اور اِس کے بعد عملی مشق کا مظاہرہ کیاگیا۔ الیکشن کمیشن کے خدشات و سوالات کے3 پہلو تھے۔ 1:الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی کارکردگی سرد یا گرم موسم میں ایک جیسی ہوتی ہے اور اِن پر موسمی اثرات کس قدر مرتب ہوتے ہیں۔ 2: کیا الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ’واٹر پروف ہوتی ہیں اور اِن پر بارش یا جان بوجھ کر پانی گرانے کی صورت یہ کام کرنا بند تو نہیں کر دیں گی؟ اور 3: کیا الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں غیرمتعلقہ افراد کی مداخلت کا شکار یعنی ہیک تو نہیں ہوں گی اور اِن پر حملہ  تو نہیں ہو گا۔ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن حکام صرف الیکٹرانک ووٹنگ ہی نہیں بلکہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹنگ کے نظام پر بھی غور کر رہے ہیں اور تجویز ہے کہ آئندہ ووٹ کی پرچی پر روشنائی سے مہر نہیں بلکہ قلم کے ذریعے چرخی کا نشان لگایا جائے کیونکہ سیاہی پھیل کر ووٹ کو ضائع کرنے یا مشکوک بنا دیتی ہے اور ایک چرخی کے علاوہ اگر کسی ووٹ پر کوئی دوسرا نشان لگایا گیا تو ایسے ووٹ کو منسوخ تصور کیا جائے گا۔ بہرحال انتخابات سے متعلق امور آسان نہیں کہ یہ کسی ایک نشست یا ایک کوشش  میں طے ہو جائیں گے۔الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال 1960ء کی دہائی سے ہو رہا ہے۔ ووٹ کی پرچی کے مقابلے اِس نظام کا آغاز ابتدأ میں punch machine کے ذریعے ہوا اور دنیا میں سب سے پہلے الیکٹرانک ووٹنگ امریکہ میں ہوئی جس کے بعد 1964ء تک 7 ممالک نے رائے شماری کے اِس مشینی طریقے کو اپنا لیا تھا۔ ماضی کے مقابلے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں مصنوعی ذہانت سمیت جدید الیکٹرانک آلات سے لیس ہیں جن میں رائے دینے والے شخص کی شناخت کا عمل انگوٹھے یا کسی بھی اُنگلی پر موجود ’بائیومیٹرک‘ کی مدد سے خودکار اور 100 فیصد درست طریقے سے انجام پاتا ہے اور یوں کسی ایک شخص کا ووٹ دوسرا شخص نہیں ڈال سکتا کیونکہ ووٹ ڈالنے کیلئے انگوٹھے یا انگلی کے نشانات کی تصدیق ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جہاں تک رائے دہندہ کی شناخت اور اُس کے اپنے من پسند انتخابی اُمیدوار کے حق میں ووٹ دینے کا تعلق ہے تو اِن دونوں مراحل میں ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں‘ کا جواب نہیں۔ پاکستان میں قومی انتخابات ایک ہی دن کروانے کی روایت قائم ہے جبکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کی صورت اِس عمل کو مرحلہ وار کروانا پڑے گا۔ ذہن نشین رہے کہ جولائی 2018ء کے عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن نے پورے پاکستان (چاروں صوبوں‘ قبائلی علاقوں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی حدود) میں مجموعی طور پر ”85 ہزار 307 پولنگ سٹیشنز“ مقرر کئے تھے جن میں 23 ہزار 585 مردوں اور 21 ہزار 679 خواتین جبکہ 40 ہزار 236 ایسے پولنگ سٹیشنز شامل تھے جہاں مرد و خواتین اکٹھے ووٹ ڈال سکتے تھے۔ اگر خیبرپختونخوا اور اُس وقت کے قبائلی علاقوں کی بات کریں تو خیبرپختونخوا میں مجموعی طور پر 12 ہزار 634 جبکہ قبائلی علاقوں میں 1896 پولنگ سٹیشنز بنائے گئے تھے چونکہ آئندہ قبائلی اضلاع کیلئے ووٹنگ حکمت عملی خیبرپختونخوا ہی کا حصہ ہوگی تو کم سے کم 14 ہزار 530 پولنگ اسٹیشنز مقرر کرنا پڑیں گے اور اِس قدر بڑی تعداد میں مشینوں کا بندوبست اور اُن کی صلاحیت برقرار رکھنے کیلئے دیکھ بھال و مرمت وغیرہ جیسی ضروریات کے باعث یہ مشین کافی مہنگی ثابت ہوگی کیونکہ اِس کیلئے خصوصی تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان میں اضلاع کی کل تعداد 160 میں آزاد جموں و کشمیر کے 10‘ بلوچستان کے 34‘ گلگت بلتستان کے 14‘ اسلام آباد کا ایک‘ خیبرپختونخوا کے 35‘ پنجاب کے 36 اُور سندھ کے 30 اضلاع شامل ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ اِن اضلاع میں سے اکثر کی آبادی دور دراز علاقوں پر مشتمل انتخابی حلقوں کا حصہ ہے۔ اِسلئے صرف ’الیکٹرانک ووٹنگ‘ نہیں بلکہ انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ایسی اصلاحات جن پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہو اور صرف ووٹنگ ہی نہیں بلکہ انتخابات کے انتظامی امور کے حوالے سے بھی لائحہ عمل اتفاق رائے سے بنایا جائے تاکہ اربوں روپے خرچ کرنے باوجود بھی عام انتخابات کی شفافیت پر کسی کو انگلی اُٹھانے کا موقع نہ ملے۔