یوم عاشور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دین کی تبلیغ‘ کلمہئ حق‘ نیکیوں کی اشاعت اور بُرائیوں کے خلاف جہاد (امربالمعروف و نہی عن المنکر) کی عملی اشکال اسلام کے جس ایک باب میں قول و فعل کی مثالوں سے سمٹ آئی ہیں‘ اُس مجموعے کو ”کربلا“ کہا جاتا ہے اور یہی وہ تعارف و تعریف ہے کہ جس سے اسلام کی شناخت‘ سند اور فلسفے کا تعین ہو چکا ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں سن ساٹھ و اکسٹھ ہجری میں پیش آنے والے واقعات کے بعد صرف جذبہئ حریت و استقامت ہی رہنما نہیں قرار پائے بلکہ اِس ایک واقعہئ کربلا سے اسلام کی تشریح ہو گئی۔ کربلا نے واضح کر دیا ہے کہ حق کیا ہے‘ حق کس کے ساتھ ہے اور حق کی تشبیہ و تعریف اگر ہوگی تو وہ کیا ہوگی۔ ’رموزِ بیخودی‘ میں یہی نکات شاعر مشرق‘ ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے کمال ِتفکر و ہنر سے بیان کئے کہ جن کی تشریح کا حق سینکڑوں ہزاروں صفحات پر کرنے کے بعد بھی ادا نہیں ہو پائے گا۔ ”زندہ حق اَز قوت ِشبیریؓ اَست …… باطل آخر داغِ ِحسرت میری اَست۔“ ترجمہ: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مدمقابل خدائی کا دعویٰ کرنے والا فرعون اور حضرت اِمام حسین رضی اللہ عنہ کے مدمقابل حاکم ِوقت ’حق و باطل‘ کی قوتوں کے ترجمان ہیں جن کی وجہ سے تاقیامت حق و باطل میں تمیز کرنا آسان ہو گیا ہے۔ تاریخ بشری میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ’حق کے علم دار‘ تھے جبکہ اِن کے مقابلے میں باطل کے طرفدار اور پاسدار اُٹھے تو اُنہیں حق کی طاقت نے روند ڈالا۔ بقول اقبالؒ دونوں قوتیں (حق و باطل) کائنات کی ابتدأ سے چلی آ رہی ہیں اور اِن کے درمیان کشمکش بھی نئی بات نہیں۔ (تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے) کہ حق ’قوت ِشبیری‘ (جناب ِحسین ابن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ) سے زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت اِمام حسین رضی اللہ عنہ جیسی بزرگوار ہستیوں نے حق کو سربلند کرنے میں جو خدمات سرانجام دیں‘ اُن کا اعتراف صرف اہل اسلام ہی نہیں بلکہ رہتی دنیا تک انسانیت خراج تحسین پیش کرتی رہے گی جبکہ دین کیلئے استقامت کا مظاہرہ کرنے والوں کی وجہ سے باطل کی قسمت میں ”حسرت کی موت“ لکھ دی گئی ہے جو بدنامی کا ایک ایسا داغ ہے‘ جسے تمام تر کوششوں اور تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرنے کے علاوہ وقت بھی مٹا نہیں سکا کیونکہ حق کا بول بالا قوت ِخیر سے ہوتا ہے جبکہ باطل اور باطل کی جملہ قوتوں کا انجام (مقدر) ذلت و خواری اور رسوائی لکھ دیا گیا ہے۔ 
سلطان الہند‘ پیر معین الدین چشتی اجمیری المعروف خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ (پیدائش 1143ء وصال 1236ء) نے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی ذات اور حق و باطل سے متعلق پورے مضمون و نصاب کو شاعرانہ کمال سے بیان کیا ہے کہ گویا پورا سمندر ایک کوزے میں بند کردیا ہو۔ ”شاہ است حسینؓ‘ بادشاہ است حسینؓ‘ دین است حسینؓ‘ دین پناہ است حسینؓ‘ سرداد‘ نہ داد دست در دست ِیزید: حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسینؓ۔ گولڑہ شریف کے سجادہ نشین‘ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے صاحبزادہ نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ (پیدائش 1949ء۔ وصال 2009ء) نے بھی اِسی مضمون کو قلمبند کرتے ہوئے گویا قلم توڑ دیا ہے کہ ”کوئی شبیرؓ سا خالق کا پرستار نہیں: امت ِاحمد ِمرسل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وفادار نہیں …… لب پہ دعوے ہیں مگر عظمت ِکردار نہیں: جرأت و عزم و عزیمت نہیں‘ ایثار نہیں۔ کودتا کون ہے‘ اُمڈے ہوئے طوفانوں میں ……کون گھر بار لٹاتا ہے بیابانوں میں؟“ شاعرانہ استعارے سے حقیقت اور حقیقت سے استعارے تک شہادت ِاِمام عالی مقام درحقیقت سیرت ِمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا بیان و تفسیر اور اسلام کا درخشاں باب ہے۔ امت کو جو بھی فیض حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے ملا‘ وہی جاری و ساری فیض امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اور جملہ اہل بیت اطہار کی سیرت طیبہ سے بھی ملتا ہے۔ ولایت کی حقیقت یہ ہے کہ یہ منصب عالیہ خاتون جنت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی خیرات ہے اور محبت و مؤوت ِاہل بیت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ آج کوئی بھی مسلک ہو اور کوئی بھی مکتبہئ فکر بزرگ اور دانشور واقعہئ کربلا اور قیام امام حسین رضی اللہ عنہ کو معرکہ حق و باطل قرار دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی (پیدائش 1903ء۔ وفات 1979ء) نے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو رہتی دنیا تک کیلئے سرچشمہئ ہدایت (آئیڈیل) قرار دیا اور لکھا کہ ”جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے مغلوب دیکھیں‘ جن کے سامنے حدود اللہ پائمال ہی نہیں بلکہ کالعدم کردی جائیں۔ خدا کا قانون عملاً ہی نہیں بلکہ باضابطہ منسوخ کردیا جائے۔ خدا کی زمین پر خدا کا نہیں بلکہ اس کے باغیوں کا بول بالا ہو رہا ہو۔ نظام کفر کے تسلط سے نہ صرف عام انسانی معاشرے میں اخلاقی و تمدنی فساد برپا ہو بلکہ خود امت مسلمہ بھی نہایت سرعت کے ساتھ اخلاقی و عملی گمراہیوں میں مبتلا ہورہی ہو اور یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ان کے دلوں میں نہ کوئی بے چینی (اضطراب) پیدا ہو‘ نہ اس حالت کو بدلنے کیلئے کوئی جذبہ بھڑکے بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے نفس کو اور عام مسلمانوں کو غیر اسلامی نظام کے غلبہ پر اصولاً و عملاً مطمئن کردیں۔ ان کا شمار محسنین میں کس طرح ہو سکتا ہے؟“عقل و آگہی کے انہی افکار ونظریات کو دیکھتے ہوئے جوش ملیح آبادی نے لازوال (بے مثل و مثال) جملے کہے ”کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؓ……چرخ ِنوع ِبشر کے تارے ہیں حسینؓ …… اِنسان کو بیدار تو ہو لینے دو …… ہر قوم پکارے گی‘ ہمارے ہیں حسین رضی اللہ عنہ۔“