یوم ِآزادی (چودہ اگست) شام ساڑھے چھ بجے‘ مینار پاکستان لاہور سے ملحقہ سبزہ زار (گریٹر اِقبال پارک) میں خاتون عائشہ اکرم اُور اِن کے چھ ساتھیوں سے پیش آنے والے واقعات کو پولیس نے بداخلاقی‘ بدتمیزی‘ بدتہذیبی‘ خاتون کی بے حرمتی اور چوری کی ایک واردات کے طور پر دیکھا اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی شکایت پر نامعلوم افراد کے خلاف فوری رپورٹ درج نہیں کی گئی لیکن جب سوشل میڈیا پر اُن سے ہوئی بدتمیزی اُور تشدد سے متعلق واقعات کی ایک سے زیادہ ویڈیوز (ناقابل تردید ثبوت) عام ہوئیں اور نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک سے مذمت ہوئی کہ خاتون سے درجنوں افراد کی بدتمیزی کیوں ہوئی ہے اور اِسے بعض لوگوں نے الگ رنگ دینے کی کوشش کی،سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ محترمہ عائشہ اکرم گھر سے مینار ِپاکستان تک پہنچنے کے دوران محفوظ رہیں اور اگر مینار ِپاکستان پہنچ کر اُن کے ساتھ بدسلوکی ہوئی تو اِس کی وجہ کہیں وہ خود بھی تو نہیں جنہوں نے اپنے ’ٹک ٹاک مداحوں کو ملاقات اُور اپنے ساتھ تصاویر بنانے کے لئے مدعو کیا تھا۔ یقینا یہ بات اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ وہاں ایک ایسا تماشا ہو جائیگا جس سے نمٹنے کی وہ صلاحیت یا طاقت نہیں رکھتیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب محترمہ عائشہ اکرم کو محسوس ہوا کہ حالات اُن کے قابو سے باہر ہو رہے ہیں تو اُنہوں نے مبینہ طور پر ’پولیس ہیلپ لائن‘ پر متعدد مرتبہ بذریعہ فون رابطہ کیا لیکن لاہور کا ”ڈولفن سکواڈ“ جو کہ ’ڈولفن پولیس فورس نامی خصوصی دستے کا حصّہ ہے اُن کی مدد کو نہیں آئے۔ توجہ طلب ہے کہ دانستہ غلطیوں میں غیردانستہ جرائم جنم لیتے ہیں اُور یہی آج کی تاریخ کا بنیادی مسئلہ ہے‘ جسے خاطرخواہ توجہ نہیں دی جا رہی ورنہ عمومی و خصوصی جرائم کی گھتیاں سُلجھ سکتی ہیں! لاہور میں پیش آنے والے سانحے کا وزیراعظم عمران خان نے بھی نوٹس لے رکھا ہے اور انسپکٹر جنرل پولیس (انعام غنی) کو کاروائی کا حکم دیا ہے۔ آئی جی پنجاب نے تعمیل کرتے ہوئے 400 افراد کے خلاف لاری اڈہ تھانے میں ایف آئی آر کے اندراج‘ کے لئے اعلیٰ سطحی تفتیشی ٹیم مقرر کرتے ہوئے آج تک رپورٹ طلب کرنے اُور ساتھ ہی ساتھ اِس بارے میں بھی تحقیق کرنے کا بھی حکم دیا کہ جب ایک خاتون پولیس کو متعدد مرتبہ پولیس کو مدد کے لئے پکار رہی تھی تو فوری کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟ اِس دوران ہراسگی کا شکار بننے والی خاتون کے طبی معائنے کی تفصیلات (20 اگست کی صبح) سامنے آئیں ہیں جن سے معلوم ہوا ہے کہ محترمہ عائشہ اکرم کو سر سے لیکر پاؤں اُور دونوں بازوؤں کی؎ کہنیوں اُور اُنگلیوں پر زخم آئے جہاں معائنے کے دوران سوجھن پائی گئی یعنی کھینچاتانی میں جو زخم آئے وہ سب اندرونی تھے جو زیادہ اذیت کا باعث ہوتے ہیں اُور یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اِس سلسلے میں 30 افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے اُور اُن سے پوچھ گچھ جاری ہے جبکہ ویڈیو کی مدد سے شناخت کرنے والے مزید ملزمان تک رسائی کے لئے ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی سے رجوع کیا گیا ہے اُور اِس سلسلے میں انسپکٹر جنرل پولیس نے خود چیئرمین ’نادرا‘ سے ٹیلی فون پر بات کر چکے ہیں جنہوں نے محرم الحرام کی تعطیلات کے دوران بھی تفتیش کا عمل جاری رکھا۔ 20 اگست ہی کی صبح وزیراعلیٰ پنجاب (عثمان بزدار) نے اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا جس میں انسپکٹر جنرل سمیت خفیہ اداروں کے نگرانوں کو بھی طلب کیا گیا تاکہ ’عائشہ اکرم کیس‘ جس کا وزیراعظم بھی نوٹس لے چکے ہیں اُور اِس پر صرف لاہور یا پاکستان ہی کی نہیں بلکہ پوری دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں کا کوئی ایسا قانونی حل بصورت قرار واقعی سزائیں نکالا جائے تاکہ عبرت ہو اُور آئندہ کوئی بھی کسی خاتون سے اِس قسم کی بدتمیزی پر مبنی سلوک کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔ ذہن نشین رہے کہ ملزمان کے خلاف عائد ایک دفعہ (354A) ایسی ہے جس کے ثابت ہونے پر عمرقید یا سزائے موت ہو سکتی ہے۔ایف آئی آر میں درج مالی نقصانات (25 ہزار روپے مالیت کا موبائل (S8 Plus)‘ پندرہ ہزار روپے نقدی اُور ایک لاکھ روپے کے طلائی زیوارت) کا ازالہ تو ہو جائے گا لیکن محترمہ عائشہ اکرم کو پہنچنے والے صدمے اور اذیت کی تلافی شاید ساری زندگی نہیں ہو پائے گی۔ یہی موقع اُن سبھی خواتین کے لئے یہ بات سوچنے کا ہے کہ وہ سوشل میڈیا (ٹک ٹاک) کے ذریعے آمدن و مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش میں اُن حدود کو عبور نہ کریں‘ جو خواتین کے لئے اِسلام نے مقرر کر رکھی ہیں اُور امن و امان کے خراب حالات کی وجہ سے اِنہی اصولوں پر عمل ضرورت بھی بن چکا ہے۔ پاکستان کا معاشرہ ابھی اِس قدر ”خواندہ (باشعور)“ نہیں ہوا کہ یہاں بے بس دکھائی دینے والی خواتین سے ہمدردی کا سلوک کیا جائے البتہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جن میں کئی ایک غیرملکی سیاح خواتین نے تن تنہا موٹرسائیکلوں اُور سائیکلوں پر پاکستان کے درجنوں شہروں کی سیر کی اُور اُن سے کسی نے بدسلوکی نہیں کی اُور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی سماج کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر وہاں معاشرت (بودوباش) اُور عوام سے بول چال کی جائے اُور ایسے پُرہجوم مقامات پر جانے سے گریز کیا جائے جہاں سکیورٹی کے حصار نہ ہوں تو خواتین کے لئے پاکستان سے زیادہ محفوظ دنیا کا دوسرا ملک نہیں ملے گا۔ مسئلہ لاقانونیت کے حوالے سے زمینی حقائق کو دانستہ نظرانداز کرنے کا ہے۔