پشاور کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذہن نشین رہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد سیاحت اور آثار قدیمہ کے محکمے بھی صوبائی حکومت کے زیرسایہ آ چکے ہیں لیکن اِن اداروں کو نہ تو خاطرخواہ افرادی و مالی وسائل حاصل ہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہوسکا ہے کہ وسائل کی بچت ہواور حسب ضرورت‘ ترقیاتی کاموں کی پائیداری سے لیکر اِن کے نمائشی پہلوؤں کا جائزہ لینے پر بھی بہتر سے بہتر نتائج حاصل ہوں۔اس وقت دنیا بھر میں سیاحت اور آثار قدیمہ کے حوالے سے اہمیت کے حامل مقامات اور شہروں کی طرف لوگ کھنچے چلے آرہے ہیں۔ پشاور کو بھی ثقافتی ورثے کے لحاظ سے اگر مالدار ترین شہر قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا اور وقتاً فوقتاً ان اثار قدیمہ کو اجاگر کرنے اور ان کی بحالی کی کوششیں ہوتی رہی ہیں، ایسے ہی گرانقدر آثار میں سے ایک فصیل شہر ہے،جس کااب تھوڑا ہی حصہ باقی رہ گیا ہے۔’فصیل ِشہر کی بحالی‘ کیلئے جاری ’تازہ دم کوششوں‘ میں ضلعی فیصلہ ساز چاہتے ہیں کہ پشاور کے اُن دروازوں کو بھی دوبارہ تعمیر کیا جائے جو اگرچہ فی الوقت اپنا وجود کھو چکے ہیں لیکن اُن کا نام و نشان (تذکرہ) کتابوں اور یاداشتوں میں محفوظ ہے۔ اِس طرح کی ایک کوشش سال 2012ء میں بھی دیکھنے میں آئی تھی جب وزارت ِبلدیات کی مداخلت سے شہر کے 8 دروازوں (سرکی‘ کوہاٹی‘ یکہ توت‘ گنج‘ ہشت نگری‘ کابلی‘ ڈبگری اور بیرسکو گیٹ) کو تعمیر کیا! ایک دفعہ کا ذکر ہے جب پشاور شہر فصیل کے اندر ہوتا تھا اور اِس میں آمدروفت کیلئے سولہ دروازے ہوتے تھے۔ اِن میں 2 دروازے (سرد چاہ گیٹ اور آسیہ گیٹ) آج بھی اپنی اصل شکل و صورت لیکن خستہ حالت میں موجود ہیں اور اصولاً باقی ماندہ دروازوں اور فصیل شہر کے ٹکڑوں کا فن تعمیر مدنظر رکھتے ہوئے نئی تعمیرات ہونی چاہیئں تھیں اور یہ کام بالکل اُسی طرح محکمہئ آثار قدیمہ کی زیرنگرانی ہونا چاہئے تھا جس طرح گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر ثقافتی راہداری کی تعمیر‘ اور سیٹھی ہاؤس و گورگٹھڑی کی بحالی کیلئے متعلقہ محکمے (آثار قدیمہ) کے علم و دانش‘ تجربے اور تربیت یافتہ افرادی قوت سے اِستفادہ کیا گیا  جو یہاں نہیں کیاگیا‘ پشاور سے متعلق فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والے ایک سے زیادہ بلدیاتی اِداروں کی مجموعی کارکردگی کا خلاصہ یہ ہے کہ پینے کے پانی کی فراہمی‘ صفائی اور گندگی اُٹھانے کیلئے ایک الگ محکمہ ’واٹر اینڈ سینٹی ٹیشن سروسز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی)‘ قائم کرنے کی ضرورت پیش آئی جس کے غیرترقیاتی (اِنتظامی) اخراجات کا بوجھ بھی پشاور ہی کے کندھوں پر ہے۔ صوبائی حکومت اگر واقعی پشاور سے بھلائی کرنا چاہتی ہے تو ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے غیرترقیاتی اخراجات جن میں اہلکاروں کو حاصل مراعات‘ گاڑیاں‘ ایندھن‘ دفتروں کے کرائے‘ بجلی و دیگر یوٹیلٹی بلز کم کرنے پر توجہ دے۔ ڈبلیو ایس ایس پی کے دفاتر جہاں کرائے کی عمارتوں میں ہیں‘ اُنہیں سرکاری دفاتر میں ضم کرنے اور بلدیاتی اداروں کے زیراستعمال گاڑیوں کو ’ٹرانسپورٹ‘ کے مرکزی دفتر کی زیرنگرانی کرنے سے وسائل کی غیرمعمولی بچت ممکن ہے۔پشاور کے 8 دروازے اَنوکھے طرز ِتعمیر جبکہ 2 دروازے قدیمی تعمیرات کا نمونہ اور باقی ماندہ 6 دروازوں (ریتی گیٹ‘ رام داس گیٹ‘ آسامائی گیٹ‘ رام پورہ گیٹ‘ کچہری گیٹ اور باجوڑی گیٹ) کی اَزسرنو تعمیر پر سوچ بچار کے جاری عمل کو ماضی سے مربوط و مسلسل ہونا چاہئے۔ اطلاعات ہیں کہ ضلعی حکومت (سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ پشاور) نے مذکورہ 8 دروازوں کی تعمیر کیلئے صوبائی حکومت سے رابطہ کیا ہے تاکہ خصوصی ترقی کیلئے خصوصی مالی وسائل فراہم کئے جائیں اور آئندہ تین ماہ (دوہزاراکیس کے اِختتام تک) ’فصیل شہر بحالی‘ نامی حکمت ِعملی کے تحت دروازوں کی گنتی پوری کر دی جائے لیکن پشاور کی جو کمی  یانقصان ہو چکا ہے وہ شاید کبھی بھی پورا نہیں ہو سکے گا کیونکہ فصیل شہر کا صرف 10 فیصد یا اِس سے بھی کم حصہ بچا ہے۔اگر ماضی میں اس طرف توجہ دی جاتی اور فصیل شہر کو ہر دور میں ایک قیمتی خزانہ اور انمول ورثہ سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت کی جاتی تو آج اس کا بڑا حصہ محفوظ ہوچکا ہوتا اورپھر فصیل کے ساتھ جڑی دیگر یادگاروں کو بھی محفوظ کرنا آسان ہوتا جن میں شہر کے قدیم دروازے قابل ذکر ہیں۔ صوبائی اور بلدیاتی فیصلہ سازوں کو یہ سوال اپنے آپ سے پوچھنا ہوگا کہ جہاں فصیل شہر کا نام و نشان تک نہ رہا ہو‘ وہاں دروازوں کی موجودگی کیا معنی رکھتی ہے؟