امریکی فوج کا سی سیونٹین جہاز کابل ائرپورٹ سے پرواز کرنے لگا تو ذکی انوری اور فدا محمد سمیت بے شمار نوجوان جہاز کے پروں‘ انجن اور دیگر حصوں پر چڑھ کر بیٹھ گئے شاید ان کا خیال تھا کہ جہاز انہیں بحفاظت امریکہ کینیڈا یا کسی اور مغربی اور ترقیافتہ ملک پہنچا دے گا ان میں سے کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ ان کا یہ عمل محض خودکشی ہے اس سے کہیں بہتر تھا کہ یہ نوجوان کابل اور دیگر شہروں میں رہتے ہوئے امن اور بہتر زندگی کیلئے کوششیں کرتے اور دعا مانگتے کم از کم ان کی جان بچ جاتی ان بدقسمت نوجوانوں میں کئی پڑھے لکھے اور قابل افغان بھی شامل تھے ذکی انوری محض19سال کی عمر میں قومی ٹیم کیلئے فٹبال کھیل چکا تھا فدا محمد کے والد کے مطابق اس نے ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرلی جبکہ گزشتہ سال اس کی شادی کردی گئی تھی حادثے کے بعد اسکے فون سے والد کو کال آئی کہ شاید فون جہاز سے گر کر جاں بحق ہونے والوں میں سے کسی شخص کا تھا آج بھی سینکڑوں لوگ بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے باہر جمع ہو کر امریکہ کینیڈا اور یورپ جانے کے خواب دیکھ رہے ہیں بے شمار لوگ سرحد پار کرکے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونا چاہ رہے ہیں جہاں پہلے سے لاکھوں افغان مہاجرین گزشتہ42سال سے مقیم ہیں اور جن کی بڑی تعداد نے کبھی وطن واپس جانے کے بارے میں نہیں سوچا افغانستان کی حالیہ صورتحال نہ صرف لاکھوں افغان نوجوانوں بلکہ دنیا بھر کیلئے غیر متوقع تھی جس آسانی سے ملک کی تین لاکھ فوج بغیر مزاحمت کے پسپا ہوگئی اور جس تیزی سے طالبان نے ایک کے بعد دوسرا شہر فتح کیا اور بالآخر اشرف غنی اور دیگر حکومتی امراء کابل چھوڑ کر دوسرے ممالک منتقل ہوئے اس نے نہ صرف افغان فورسز یہ تنقید کا جواز پیدا کیا بلکہ کئی حلقوں میں یہ بحث بھی چھڑ گئی کہ شاید دوحہ مذاکرات اور حالیہ ملاقاتوں کے بعد بین الاقوامی قوتوں اور امریکہ نے طالبان کو تسلیم کرنے کیساتھ ساتھ ان کو پرامن طور پر اقتدار منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اب اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں اور آئندہ سالوں میں امریکہ نے خطے کے بارے میں کیا سوچ رکھا ہے یہ بحث ہر جگہ چھڑی ہوئی ہے اگر یہ کسی بین الاقوامی منصوبے کا حصہ نہیں تو امریکہ کیلئے افغانستان گھاٹے کا سودا ثابت ہوا ہے جہاں اس نے گزشتہ20سالوں کے دوران2ہزار ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کئے ہیں۔2448 امریکی اور 1144 نیٹو فوجیوں کی جانیں گنوائی ہیں اور نتیجہ20سال بعد طالبان کی فتح کی صورت میں سامنے آیا ہے ان20سالوں کے دوران اتحادی افواج کے علاوہ 64 ہزار سے زائد افغان فوجی اور پولیس اہلکار جان سے گئے ہیں جبکہ72صحافی اور444 امدادی کارکن اس جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں دوسری طرف سے ہزاروں افغان شہری اورطالبان اس جنگ میں جان سے گئے ہیں یا معذور ہو چکے ہیں ہمسایہ ہونے کے ناطے اس جنگ کی وجہ سے پاکستان میں 70ہزار سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں اور اربوں روپے کی املاک تباہ ہوگئی ہیں موجودہ صورتحال میں اب بھی کابل اور دیگر شہروں میں افراتفری اور غیر یقینی صورتحال ہے البتہ خوشی آئندامر فی الحال یہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں جانی نقصان نہ ہونے کے برابر ہے طالبان نے عام معافی کے اعلان کے ساتھ ساتھ خواتین کو تعلیم‘ صحت کے شعبے میں خدمات اور دیگر حقوق دینے کا اعلان کیا ہے خدا کرے کہ افغانستان اورخطے میں پائیدار امن قائم ہو اور لوگ امن کے ساتھ ملک کی تعمیر اور ترقی میں حصہ لے سکیں۔