نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی نے قومی شناختی کارڈ کی تصدیق و تجدید کا نیا طریقہئ کار متعارف کرایا ہے جسے ”جدید نظام“ کے طور پر (اکیس اگست کے روز) متعارف کرایا گیا ہے اور اِس کوشش کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جن غیرملکیوں نے غیرقانونی طور پر ’قومی شناختی کارڈ (پاکستانی شہریت)‘ حاصل کر رکھی ہے اُن کے خلاف کاروائی کی جائے لیکن جعلی شناختی کارڈ کھوج نکالنے کا یہ طریقہئ کار صرف اُسی صورت کامیاب ہوگا جبکہ قومی شناختی کارڈ رکھنے والا ہر شخص بالخصوص گھرانوں کے سربراہ بذریعہ فون یا قریبی نادرا آفس سے رجوع کریں اور بذریعہ فون رجوع کرنے والوں کو ایک خاص قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی حالانکہ قصور عوام و خواص کا نہیں بلکہ قومی شناختی کارڈ سمیت نیشنل ڈیٹابیس میں غلط اندراج کرنے والے ’نادرا‘ ہی کے اہلکار ہیں‘ جنہوں نے دانستہ طور پر غلط تصدیق شدہ درخواستوں کے عوض قومی شناختی کارڈ جاری کئے۔ سب سے زیادہ غیرقانونی شناختی کارڈ افغان مہاجرین نے حاصل کئے اور اِس سلسلے میں اختیار کیا جانے والا طریقہئ واردات انتہائی دلچسپ ہے اور یہی پاکستان کے انتظامی نظام کی وہ کمزوری بھی ہے جسے دور کرنے کیلئے خاطرخواہ سوچ بچار نہیں ہو رہی۔ حکومت ایک طرف جعلی شناختی کارڈ کی کھوج لگانے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری طرف اُس طریقہئ کار کو تبدیل کرنے کے بارے میں خاطرخواہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں ہو رہا جس کے تحت کسی بھی غیرملکی کیلئے پاکستان کا شناختی کارڈ حاصل کرنا مشکل نہیں۔ افغان مہاجرین کی اکثریت نے قبائلی علاقوں (جن کی حیثیت بندوبستی علاقوں کے مساوی ہو چکی ہے) کے مستقل اور ترجیحاً ملک کے چھوٹے بڑے شہروں (بالخصوص پشاور‘ اسلام آباد‘ کوئٹہ‘ لاہور اور کراچی) میں عارضی سکونت کے کوائف درج کروا رکھے ہیں چونکہ ایسا کوئی بھی قانون موجود نہیں کہ کسی قبائلی علاقے کا رہنے والا بندوبستی ضلع میں جائیداد نہیں خرید سکتا اِس لئے قبائلی علاقوں کے کوائف پر شہری علاقوں میں جائیدادیں خریدی گئیں۔ بینک اکاؤنٹس کھولے گئے اور اِس عمل کو زیادہ قانونی بنانے کیلئے افغان مہاجرین نے پاکستانیوں کو بھی بطور ’سلیپنگ پارٹنر‘ اپنے کاروبار میں شریک کر لیا تاکہ انکم ٹیکس یا قانونی کھاتوں میں معاونت رہے۔ کئی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں افغان مہاجرین نے لاکھوں روپے دے کر شناختی دستاویزات حاصل کیں اور پھر کروڑوں روپے کی جائیدادیں ایسی نئی بستیوں میں جا کر خریدیں جہاں ایک ہمسائے کو دوسرے ہمسائے کے بارے میں جاننے کی جستجو نہیں ہوتی اور سب ایک دوسرے سے لاتعلق رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔
قومی شناختی کارڈ کوائف کی جانچ پڑتال کا فیصلہ ’ڈیجیٹل پاکستان‘ نامی حکمت عملی کے بارے میں اختیار کئے جانے والے لائحہ عمل (روڈ میپ) کا حصہ ہے اور اگرچہ ’نادرا‘ کے پاس کوائف الیکٹرانک ڈیٹابیس ہی میں محفوظ ہوتے ہیں لیکن اُن کی تصدیق و جانچ کے مراحل اِس سے قبل وسیع نہیں تھے۔ حکمت عملی کے تحت فون نمبر 8009 پر ’ایس ایم ایس (شارٹ میسجنگ سروس) کے ذریعے 13 ہندسوں پر مشتمل قومی شناختی کارڈ نمبر اور قومی شناختی کارڈ پر درج تاریخ اجرأ ارسال کرنے پر خاندان کے جملہ اراکین کی تفصیلات (family tree) حاصل ہو جائے گا اور اگر کسی شخص کے خاندان میں غیرمتعلقہ شخص کے نام کا اندراج پایا جائے تو وہ بذریعہ فون ہی نادرا کو مطلع کر سکتا ہے جس کے لئے طریقہئ کار کے مطابق اُسے اپنے فون سے 1 ارسال کرنا ہوگا اور ایسی صورت میں ’نادرا‘ کا نمائندہ پہلی فرصت میں فون نمبر 051-2778009 کے ذریعے رابطہ کرے گا جبکہ 2 لکھ کر ارسال کرنے سے اِس بات کی تصدیق ہو جائے گی کہ کسی شناختی کارڈ سے جڑے کوائف درست ہیں اور صارف کے قومی شناختی کارڈ اور اہل خانہ کی معلومات و تفصیلات کی تصدیق ہو جائے گی لیکن اِس پورے عمل پر قریب 10 روپے خرچ آئے گا جس میں ایس ایم ایس کے اخراجات (چارجز) اور ٹیکس شامل ہیں۔ 10 کروڑ سے زائد پاکستانی قومی شناختی کارڈ رکھتے ہیں جن میں سے اگر نصف ایک چوتھائی بھی اپنے خاندان کے کوائف کی تصدیق بذریعہ فون کروائیں تو اِس سے 2 قومی اداروں (نادرا اور ایف بی آر) کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے منتقل ہو جائیں گے! عجیب و غریب حکمت عملی ہے کہ وہ غلطی جو ’نادرا‘ کے اہلکاروں سے دانستہ یا غیردانستہ طور پر سرزد ہوئی لیکن اُس کی قیمت پورے پاکستان کو ادا کرنا پڑے گی اور باوجود اِس نئی قیمت ادا کرنے کے بھی ضمانت نہیں کہ غیرقانونی طور پر شناختی کارڈ حاصل کرنے والے تمام افراد کی نشاندہی ممکن ہو گی کیونکہ شناختی کارڈ حاصل کرنے والوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جن کے کوائف کسی خاندان کا حصہ نہیں بلکہ اُنہوں نے خود کا الگ خاندان کے طور پر رجسٹر کروا رکھا ہے!نادرانے قومی ڈیٹا بیس کی صورت میں ایک بہت ہی اہم قدم اٹھایا ہے جس سے لاتعداد شعبوں میں فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔تاہم نادرا کے معاملات کو مزید شفاف بنانے کی ضرورت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔وفاقی حکومت کو ’نادرا‘ میں ہونے والی مالی و انتظامی امور پر بھی نظر رکھنی چاہئے جیسا کہ رواں ماہ ایڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے مالی سال 2020-21ء میں ہوئے اخراجات کے بارے آڈٹ اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ اِس آڈٹ اعتراض سے ایک حقیقت بھی عیاں ہوئی ہے کہ حکومت نادرا کو آمدنی کے ذریعے (source of income) کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور نادرا خدمات کی قیمت انتہائی زیادہ رکھی گئی ہیں۔ حال ہی میں کورونا وبا سے ممکنہ بچاؤ کی ویکسین لگوانے کی سند (سرٹیفیکٹ) بھی نادرا کے ذریعے حاصل کرنا لازم قرار دیا گیا ہے جس کی قیمت 100 روپے مقرر کی گئی ہے اور یوں کروڑوں روپے سرکاری و نجی ملازمین اور بیرون ملک سفر کرنے والوں سے وصول کئے گئے ہیں جن کی مجبوری ہے کہ اُنہیں کورونا ویکسین لگوانے کی سند کسی نہ کسی مرحلے پر بطور ثبوت پیش کرنا ہوتی ہے۔ عام آدمی (ہم عوام) کیلئے پہلے ہی مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ’ڈیجیٹل پاکستان‘ کے عنوان سے شفاف طرز حکمرانی متعارف کروانا اپنی جگہ اہم و ضروری لیکن اِس کا بوجھ عام آدمی پر منتقل نہیں ہونا چاہئے۔