اقوام متحدہ نے افغانستان کی صورت حال کو انتہائی غیرمستحکم قرار دیتے ہوئے اقوام عالم سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کی اپیل کی ہے۔ پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آرکا کہنا ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے پرتشدد واقعات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے تاہم صورت حال کا مکمل نقشہ ابھی واضح نہیں ہے‘ لاکھوں افغان شہری خوف و ہراس میں مبتلا ہیں اور وہ اپنا ملک چھوڑنا چاہتے ہیں اس سال خانہ جنگی کی وجہ سے افغانستان میں 5لاکھ 50ہزارافراد بے گھرہوچکے ہیں‘ پہلے سے 29 لاکھ افراد ملک کے اندربے گھر ہیں اورگزشتہ چالیس سالوں سے26لاکھ افغان باشندے ملک سے فرار ہوکر دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں‘اقوام متحدہ نے افغانستان کے پڑوسی ملکوں پاکستان، ایران اور تاجکستان سے مہاجرین کیلئے اپنی سرحدیں کھولنے کی اپیل کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغان شہری اپنا ملک کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں طالبان نے دارالحکومت پر قبضے کے بعد اپنے مخالفین کیلئے عام معافی کا اعلان کردیا ہے۔ اور واضح کیا ہے کہ اشرف غنی حکومت کیلئے کام کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی انتقامی کاروائی نہیں کی جائے گی‘ طالبان ملک میں وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر بھی راضی ہیں‘ انہوں نے عالمی برادری سے بھی افغانستان کی تعمیر نو کیلئے تعاون کی اپیل کی ہے۔ افغانوں کو اپنے ملک میں رہتے ہوئے قومی تعمیر نو میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہئے۔سابق صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار اور طالبان کے اعلان فتح کو ایک ہفتے سے زائد عرصہ گزر گیا۔ اب بھی کابل کے ہوائی اڈے پر دس ہزار سے زائد افراد بیرون ملک جانے کے انتظار میں بیٹھے ہیں کچھ لوگوں نے رن وے سے ٹیک آف کرنیوالے جہاز پر چڑھنے کی کوشش کی‘جہاز جب فضاؤں میں اڑان بھرنے لگا تو جہاز کے پہیوں سے لٹکے تین افراد گر کر ہلاک ہوگئے شناخت کے بعد پتہ چلا کہ ان میں افغان یوتھ فٹ بال ٹیم کا کھلاڑی اور ڈاکٹر بھی تھا جو طالبان کے خوف سے نہیں بلکہ خوشگوار مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے امریکہ اور یورپ جانا چاہتے تھے‘ امریکہ، برطانیہ ، متحدہ عرب امارات سمیت بعض ملکوں نے افغانستان چھوڑنے والوں کو عارضی بنیادوں پر پناہ دینے کی پیش کش کی ہے‘ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو پناہ گزینوں کی حوصلہ افزائی کی بجائے افغانستان میں ان کی بحالی اور آباد کاری کا کوئی جامع منصوبہ تیار کرنا چاہئے اورپہلے سے پڑوسی ملکوں پاکستان اور ایران میں مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا کوئی لائحہ عمل مرتب کرناچاہئے‘اور یہ فیصلہ جس قدر ہو سکے اتنا ہی بہتر ہے۔