لوکل کونسل بورڈ‘ خیبرپختونخوا کی جانب سے جاری اعلامیہ (بتاریخ یکم جون دوہزاراکیس) میں پشاور میں ’کپیٹل میٹرو پولیٹن گورنمنٹ‘ اور پانچ تحصیلوں کے قیام کا اعلان کیا گیا‘ جن پر عمل درآمد کیلئے ’یکم جولائی دوہزاراکیس‘ کی تاریخ مقرر کی گئی۔ بنیادی طور پر یہ بندوبست ’لوکل گورنمنٹ الیکشنز اور رورل ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ (دیہی ترقی کے محکمے) کی جانب سے ہوا‘ جس نے ’پشاور‘ کیلئے مالی طور پر زیادہ خودمختار و انتظامی فیصلہ سازی میں زیادہ آزاد ’کیپیٹل میٹروپولیٹن گورنمنٹ‘ قائم کی گئی۔ اِس نئے بلدیاتی بندوبست میں پشاور کی تمام نیبرہڈ کونسلیں شامل ہوں گی۔ اِس کے علاوہ جن پانچ تحصیلوں (بڈھ بیر‘ چمکنی‘ شاہ عالم‘ پشتہ خرہ اور متھرا) کے قیام کا اعلان کیا گیا وہ بھی ایک انتہائی اہم پیشرفت تھی کیونکہ پشاور کی آبادی میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے بندوبستی ڈھانچے کی توسیع بھی ضروری ہے‘ تاکہ دیہی علاقوں کے رہنے والوں کے مسائل اُن کے قریب ترین مراکز میں حل ہو سکیں اور اُنہیں پشاور شہر کی جانب رخ نہ کرنا پڑے۔ یہ تمام پیشرفت اور توسیعی بندوبست ’لوکل گورنمنٹ 2019ء‘ کے قانون (ایکٹ) کی روشنی میں ہو رہا ہے جس میں تحریر ہے کہ ڈویژنل ہیڈکواٹرز اور تحصیل حکومتوں پر مشتمل ’سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ‘ کے نظام بھی تخلیق کئے جائیں۔ اصولی طور پر یہ کام ڈیڑھ دو برس قبل اُسی وقت ہو جانا چاہئے تھا‘ جب مذکورہ قانون منظور کیا گیا تھا لیکن کسی قانون کی منظوری کے بعد اُسے عملی جامہ پہنانے کیلئے طریقہئ کار اور اِس طریقہئ کار کے قواعد و ضوابط بنانے میں بہت وقت لگتا ہے‘ تاہم اس وقت مضبوط و فعال بلدیاتی نظام (انتظامی ڈھانچے) کی جتنی ضرورت ہے شاید ہی کبھی ہو۔ بنیادی طور پر پشاور سمیت خیبرپختونخوا کو بیک وقت ایک نہیں بلکہ کم سے کم تین قسم کے انتظامی بندوبست کے تحت چلا رہا ہے۔ اِس نظام میں عوام کی منتخب کردہ صوبائی اسمبلی کے اراکین‘ اِن اراکین پر مشتمل صوبائی کابینہ (حکومت)‘ جس کے ماتحت محکموں کے انتظامی نگران اور اِن نگرانوں کے ماتحت ضمنی نگران اور اُن کے ماتحت کمشنری نظام اور اِن سب سے الگ بلدیاتی نظام جس میں عوام کے منتخب و غیرمنتخب نمائندوں (ملازمین) اپنی اپنی صلاحیتوں‘ وسائل اور سمجھ بوجھ کے مطابق عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہی کام بہت سارے محکموں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے کسی بھی ایک محکمے کی سرزنش نہیں ہو سکتی۔میٹروپولیٹن بندوبست سے قبل ویلیج کونسلوں کو تحصیل ایڈمنسٹریشن میں ضم کر دیا جائے گا جس کے بعد پشاور کی کپیٹل میٹروپولیٹن حکومت چھ تحصیلوں پر مشتمل ہو گی جبکہ ٹاؤن ٹو و ٹاؤن فور اور حسن خیل کی حدود میں پانچ تحصیلوں کا ساتھ ہی اعلان (اضافہ) کر دیا گیا ہے اگرچہ نئے بندوبست میں پشاور کو وسطی‘ مشرقی‘ مغربی‘ شمالی و جنوبی حصوں میں تقسیم نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایسا کوئی منصوبہ زیرغور ہے کہ ماضی کی طرح پشاور شہر اور اِس کے دیہی علاقوں کی انتظامی حیثیت کو الگ الگ کیا جائے کیونکہ اِن کی آبادی‘ مسائل اور ضروریات الگ الگ (قطعی مختلف) ہیں۔ اُمید ہے کہ فیصلہ سازوں کو اُس غلطی کا احساس ہو رہا ہوگا جب اُنہوں نے شہر کے ساتھ دیہی علاقوں کو بھی شہری علاقوں کا درجہ دیدیا جس سے پشاور شہر کی ترقی کیلئے مالی وسائل تقسیم ہو گئے۔کیا کپیٹل میٹروپولیٹین گورنمنٹ بننے کے بعد صرف نام ہی تبدیل ہوگا یا بنیادی طور پر بلدیاتی اداروں کی کارکردگی میں بھی بہتری آئے گی؟ عام آدمی (ہم عوام) نکتہئ نظر سے پشاور پر حکمرانی کرنے والے منتخب نمائندوں و غیرمنتخب ملازمین کی تعداد میں اضافہ کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا اور یہاں کے دیرینہ مسئلے و سلگتے مسائل جن میں سرفہرست پینے کے صاف پانی کی کمی و فراہمی‘ نکاسیئ آب کے نظام کی بحالی و توسیع‘ صفائی کی صورتحال میں بہتری‘ کوڑا کرکٹ کی تلفی‘ حکومتی بندوبست میں تعلیم و صحت سے متعلق سہولیات کا معیار اور ترقی کے غیرپائیدار جاری و ساری عمل شامل ہیں۔ شنید ہے کہ کیپٹیل میٹروپولیٹن گورنمنٹ ”پہلا کام“ تجاوزات کیخلاف ایسی کاروائیوں کی صورت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے‘ جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملے گی اور جو یہ اقدام پشاور کی تاریخ میں مثالی ہوگا کہ جس میں سیاسی دباؤ کو بھی خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔