شاید یہ مغلیہ عہد (16ویں اور 17ویں صدی) میں بنائے جانے والے باغات تھے‘ جن کی وجہ سے پشاور کو ’پھولوں کا شہر‘ اور چند تاریخی حوالوں میں ’ست رنگی شہر (رینبو سٹی)‘ کہا گیا اور یہ بات زیادہ پرانی یا نرالی بھی نہیں کہ جب پشاور کے پھل پھول‘ سبزی‘ یہاں کا دنداسہ‘ جڑی بوٹیاں اور زرعی سوغات کی دھوم دنیا میں ہوتی تھی جو اپنے معیار کی وجہ سے بھی پہچانی جاتی تھیں اور یوں پشاور ایک ”brand-name“ ہوا کرتا تھا‘ جس کا ذکر بطور استعارہ نغمیہ شاعری بھی ملتا ہے۔ پشاور کے کاروباری معمولات کا حصہ ہوا کرتا تھا کہ سڑک کنارے ٹوکروں کی صورت (بڑی مقدار) میں پھول فروخت کئے جاتے تھے اور اہل شہر کی ایک تعداد کا دن کے اختتام پر پھولوں کے گجرے و ہار ساتھ لیجانا نہیں بھولتے تھے‘ پشاور کی باعث ِکشش خوبیاں ایک ایک کر کے کھو رہی ہیں۔ حالیہ چند برس میں ’بڑا نقصان‘ یہ ہوا ہے کہ پشاور کی فضا جو کبھی پھولوں کی خوشبو سے معطر ہوا کرتی تھی اور پشاور کے آب و ہوا کی یہ خوبی بھی دم توڑ گئی ہے کہ یہاں کا پانی زود ہضم ہوا کرتا تھا اور اب صورتحال یہ ہے کہ پشاور میں ’صاف پانی‘ ملنا ممکن نہیں رہا اور اندرون شہر رہنے والوں کے ہاں بوتلوں میں بند پانی استعمال ہوتے دیکھا گیا ہے۔تاریخ میں چرچا بھی بہت ہے اور پشاور کے نام بھی بہت ہیں جن میں سے ایک سنسکرت لفظ ’پرشاپورا یا پرشپورہ‘ بھی ہے‘ جس کے معنی ’پھولوں کے دیس‘ کے بنتے ہیں۔ تاریخ کے سینے میں تذکرہ محفوظ ہے کہ جب مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر (1505ء) درہئ خیبر کے راستے فتوحات کرتا ہوا پشاور پہنچا اور چند برس یہاں قیام کے دوران اُس نے مقامی افراد کی اکثریت کے معمولات پر غور کیا جن کی اکثریت زراعت پیشہ تھی اور یہ پشاور شہر کی فصیل سے باہر کھیتی باڑی میں مشغول رہتے تھے تو اُس نے یہاں کی زرخیز مٹی اور موافق موسم کی موجودگی کو بھانپ لیا اور یہی وجہ تھی کہ اُس وقت کے بہترین سے بہترین وسائل کا استعمال کرتے ہوئے شاہکار ’شاہی باغ‘ اُور ’وزیر باغ‘ تعمیر کئے گئے‘ جن کی باقیات اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں اور صرف مغل ہی نہیں بلکہ اِن کے بعد برطانوی راج کے دوران بھی پشاور کے باغات میں کمپنی باغ اور کنگھم پارک (جناح پارک) کا اضافہ ہوا لیکن افسوس کہ یہ سبھی (برائے نام) باغات اپنے حسن اور افادیت کھو چکے ہیں‘شمار ممکن نہیں کہ پشاور میں ماحول دشمن گاڑیوں کی کل تعداد کتنی ہے البتہ ایسی گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے جن سے زہریلا دھواں اُگلتا نظر آتا ہے اور یہ صرف ایک ظاہری علامت ہے جبکہ پشاور کے اطراف میں اینٹوں کے بھٹے‘ صنعتوں سے خارج ہونے والا دھواں‘ کیمیائی مادوں کی وجہ سے زیرزمین پانی بھی آلودہ ہو رہا ہے! پشاور پولیس کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ہر دن پشاور میں قریب 7 لاکھ گاڑیوں داخل یا خارج ہوتی ہیں۔ 35 ہزار رجسٹرڈ 2 سٹروک گاڑیاں اور آٹو رکشہ فضائی و صوتی آلودگیوں کا الگ سے باعث ہیں۔وزیرباغ اٹھارہویں صدی میں درانی راج کی یادگار ہے جسے 1810ء میں سردار فتح محمد خان بارکزئی المعروف وزیر نے تعمیر کروایا تھا اور اُنہی کے نام نامی سے ’وزیرباغ‘ مشہور ہوگیا۔ لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ ماضی میں پشاور کے حملہ آور اور اِسے فتح کرنے والے یہاں آ کر باغات بناتے تھے۔ مسافروں کے ٹھہرنے کیلئے سرائے (عارضی قیام گاہیں) بنائی جاتی تھیں۔حال ہی میں شروع ہوئی مون سون شجرکاری کے دوران وزیرباغ کا انتخاب کیا گیا ہے‘ جو کہ خوش آئند ہے تاہم کسی درخت کو لگانے اور اِس کے اپنے وزن پر کھڑا ہونے (پلنے بڑھنے) میں سالہا سال کی حفاظت درکار ہوتی ہے۔ یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ صرف درخت لگانے سے ماحولیاتی (فضائی) آلودگی کم یا ختم نہیں ہوگی بلکہ درختوں کے ساتھ ماحولیاتی تنوع (ایکوسسٹم) کو بھی بحال ہونے کے لئے گنجائش (space) اور توجہ (وقت) دینا ہوگا۔