چلیں یہ بھی خوش آئند امرہے کہ اب بھی کچھ لوگوں کو یہ خوش گمانی ہے کہ ہم جیسے قلمکاراگر ان کے مسائل پرروشنی ڈالیں گے تو حکام بالا نہ صرف فوری توجہ دیں گے بلکہ ان کے مستقل حل کی راہ بھی نکالیں گے گذشتہ دنوں بی ٹیک ا نجینئرزکے ایک گروپ کے ساتھ ایک مختصر نشست میں شرکت کاموقع ملا اس موقع پر انہوں نے دل کھول کرہمارے سامنے رکھ دیا یہ نشست ہمارے ایک مشترکہ دوست کے ذریعہ ہوئی تھی جس کے بعدبی ٹیک انجینئرز کی طرف سے جو فریاد سنائی گئی وہ ہم من وعن حکام بالا کے سامنے رکھناچاہتے ہیں تاکہ ان کے مسائل پرہمدردانہ غورکیا جاسکے ہماراایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے کو خوش دیکھ کر ہماری نیند اڑ جاتی ہے ہم دوسرے فریق کو غلط ثابت کرنے کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے آزمانے پر تیار ہو جاتے ہیں یہی حال ہماری بیورو کریسی میں ہے پی ایم ایس اور پی اے ایس گروپ میں کہیں لڑائی سب کو پتہ ہے ایسے میں بی ایس سی اور بی ٹیک انجینئرز بھی آمنے سامنے دکھائی دیتے ہیں کچھ لوگ خود تو پروموشن اور الاؤنسز لے چکے ہیں لیکن اپنے دوسرے کچھ ساتھیوں کو اس حق سے محروم رکھنے پرمصر ہیں ان کا مؤقف ہے کہ صرف پاکستان انجینئرنگ کونسل سے رجسٹرڈ انجینئرز ہی پروموشن اور الانسز کے حقدار ہیں اس ضمن میں وہ پی ای سی ایکٹ کی صرف ان شقوں کا سہارا لے رہے ہیں جو کہ ان کے موافق ہیں جبکہ ایسی شقیں جو کہ ایسوسی ایٹ اور بی ٹیک انجینئرز کے حق میں ہیں ان کا ذکر نہیں کرتے یہ بی ٹیک کی ڈگری کیا ہے اس کیلئے آپ کو تھوڑی دیر کیلئے ماضی میں لیے چلتے ہیں 1973 میں حکومت پاکستان نے ایسوسی ایٹ انجینئرز کے اسرار پر ایک ڈگری پروگرام شروع کیا جس کے ذریعہ وہ افراد جن کے پاس میٹرک کے بعد تین سالہ ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرکا امتحان پاس کرنے اوربعدازاں متعلقہ شعبہ میں تجربہ تھا وہ اس ڈگری پروگرام میں داخلہ کے اہل قرارپائے اس چار سالہ پروگرام کی تکمیل کے بعد بی ٹیک آنرزیعنی بیچلر آف انجینئرنگ ٹیکنالوجی کی ڈگری دینے کافیصلہ ہوا اور اس کو بی ایس سی انجینئرنگ کے مساوی قرار دیا گیا دونوں ڈگری پروگرام موجودہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور سابقہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن سے منظور شدہ ہیں دونوں میں فرق یہ ہے کہ بیچلر آف انجینئرنگ میں کنسیپچل ڈیزائن کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ بیچلر آف انجینئرنگ ٹیکنالوجی میں اپلائڈ انجینئرنگ یا فیلڈ انجینئرنگ پر فوکس کیا جاتا ہے دونوں کو حکومتی توجہ کی ضرورت تھی مگر پہلے پر تو حکومتی توجہ رہی مگرمؤخرالذکر عدم توجہی کا شکار رہا ایک تجویز یہ دی گئی کہ حکومت پی ای سی کو ختم کر کے پاکستان انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کمیشن تشکیل دے جس میں انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی دونوں کی سرپرستی کی جائے پاکستان انجینئرنگ کونسل ایکٹ کی شق نمبر اٹھائیس میں ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئررکھنے والے افراد کو تحفظ فراہم کیا گیا یہ بی ٹیک انجینئرز ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرکے بعد مزید چار سال انجینئرنگ ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر ان کے ساتھ زیادتی جاری ہے 1985 تک بی ٹیک کی ڈگری کو پی ای سی تسلیم کرتی رہی مگر بعد میں اس سے لاتعلق ہو گئی۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے 1993ء میں سوموٹو ریویو پٹیشن نمبر 52 نمٹاتے ہوئے اپنے تفصیلی فیصلے میں (جوجون 1995 میں حکم جاری کیا ( کہا کہ پی ای سی ایکٹ سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے ملازمین پر لاگو ہی نہیں ہوتا سرکاری اداروں میں ملازمین پروفیشنل انجینئرنگ ورک نہیں کرتے یہ ایکٹ پروفیشنل کنسلٹنٹ اور کنٹریکٹرز پر لاگو ہوتا ہے مزید کہا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سرکاری ملازمین کی ترقی میں دخل اندازی نہیں کر سکتی مذکورہ بالا فیصلے میں واضح طور پر درج ہے کہ پی ای سی کا کام حکومتی ملازمین پر فوکس کرنا نہیں بلکہ انجینئرنگ پروفیشن اور انجینئرنگ کی تعلیم کو ریگولیٹ کرنا ہے مگر مبینہ طورپر اس ادارے نے اپنے اصل مقصد سے ہٹ کر دیگر معاملات پر زور دینا شروع کیا ہوا ہے حالانکہ کونسل کو چاہئے تھا کہ ڈپلومہ، سرٹیفیکیٹ سے لے کر انجینئرنگ اور انجینئرنگ ٹیکنالوجی دونوں پر توجہ دیتی اس نے صرف تھیوریٹیکل انجینئرنگ پر دھیان رکھا بی ٹیک انجینئرزکایہ بھی گلہ ہے کہ کونسل سے منسلک سرکاری ملازمین عملی طور پر اس ادارے کے الیکشن میں حصہ لیتے رہے اور حکومت سے زیادہ اس کونسل سے وفادار رہے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت پاکستان نے وزارت تعلیم کے ذریعہ اعلامیہ جاری کیاکہ جہاں جس پوسٹ پر بی ایس سی انجینئرنگ کی تعلیم درکار ہو گی وہاں پر بی ٹیک کی ڈگری کے حامل افراد اہل ہونگے مگر پاکستان کے تمام تعمیراتی شعبہ کے ادارواں کی باگ ڈور پی ای سی کے ممبرز کے پاس تھی تو بی ٹیک انجینئرز کی کہیں شنوائی نہ ہو سکی پاکستان انجینئرنگ کونسل ایکٹ میں 2011 تک انجینئرنگ ٹیکنالوجی کی تعلیم کو کور حاصل رہا لیکن 2011 کے بعد ان کے گرد گھیرا مزید تنگ ہو گیا۔ صوبہ سندھ میں ان کا استحصال روکتے ہوئے حکومت سندھ نے ان کی ترقی کیلئے قانون سازی کی اور گریڈ 18 تک ان کو کوٹہ دیا گیا کیونکہ یہ پسا ہوا طبقہ تھا کچھ لوگ اس کے خلاف عدالت چلے گئے مگر سندھ سروس ٹریبونل نے ان کی اپیل رد کر دی جس کے بعد یہ لوگ سپریم کورٹ چلے گئے لیکن سپریم کورٹ نے بھی 1995 والے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے مولا بخش بنام گورنمنٹ آف سندھ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اپیل خارج کر دی اور وہی بات دہرائی کہ پی ای سی ایکٹ حکومتی ملازمین پر لاگو نہیں ہوتا اورکہا کہ پی ای سی کا کوئی اختیار نہیں کہ وہ سرکاری ملازمین کی ترقی کے معاملات میں دخل د ے اور یہ بھی کہا کہ ایسی جگہیں جہاں پر پروفیشنل انجینئرنگ ورک ہوتا ہے وہاں صرف پی ای سی کے رجسٹرڈ افراد ہی تعینات ہوں (یاد رہے کہ سپریم کورٹ یہ واضح کر چکی ہے کہ گورنمنٹ کے اداروں میں پروفیشنل انجینئرنگ ورک نہیں ہوتا اور نہ ہی سرکاری ملازمین پر اس ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے)یہاں یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ بہت سے انجینئرنگ ٹیکنالوجی گریجویٹ کو پی ای سی بطور پروفیشنل انجینئرز رجسٹرڈ بھی کر چکی ہے مگر اب مبینہ طورپر وہ اس تعلیم کے حامل افراد کی مخالفت بھی کرتی ہے ان افراد کو اب نیشنل ٹیکنالوجی کونسل نے رجسٹرڈ کرنا شروع کر دیا ہے اس فیصلہ کی روشنی میں سندھ گورنمنٹ جو کہ سپریم کورٹ میں فریق بھی تھی نے متعدد بی ٹیک انجینئرز کو 17 گریڈ سے 18 گریڈ اور کچھ کو 18 سے 19 میں بھی پروموٹ کیا جبکہ ہمارے صوبہ پختونخوامیں حال ہی میں محکمہ آبپاشی میں اس ضمن میں کچھ قانون سازی ہوئی اور ایسے افراد جنہیں ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ انجینئرنگ ٹیکنالوجی کی چار سالہ ڈگری کورس کے حصول کی بنا پر گریڈ 17 میں ایس ڈی او/ اسسٹنٹ انجینئرزکے عہدے پر ترقی دی گئی کو گریڈ 18 میں ایکسیئن / ٹیکنکل آفیسر وغیرہ کی پوسٹ پر پروموشن کے مواقع دیئے مگر یہاں کچھ لوگ اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم بی ٹیک انجینئرز کے گریڈ 17 سے 18 کے حق کو تسلیم نہیں کرتے بقول بی ٹیک انجینئرز سیکرٹریٹ میں جونیئر کلرک اور اسسٹنٹ کی پوسٹ سے ڈپٹی سیکرٹری اور سیکرٹری کے عہدے پر ترقی کے مواقع دستیاب ہیں ان کویہ بھی شکوہ ہے کہ یہ لوگ ورکس ڈیپارٹمنٹ کے سب انجینئرزگریڈ 16 اور نیچے کے گریڈ سے ترقی پا کر ایس ڈی او کے عہدہ پر آنے والوں کو ٹیکنیشن کہتے ہیں جبکہ خود ان میں سے بہت سے افراد بطور سب انجینئرزبھرتی ہو کر بذریعہ کوٹہ ترقی پا چکے ہیں بی ٹیک انجینئرز سوال کرتے ہیں کہ کیا کہیں کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر کبھی بطور ڈسپنسر / ٹیکنیشن بھرتی ہوا اور پھر میڈیکل آفیسر ترقی پائی ان کایہ بھی کہناہے کہ دنیا بھر میں بی ٹیک انجینئرز کو بی ایس سی انجینئرز کے مساوی حقوق حاصل ہیں ہماری حکومت کو بھی کچھ سخت اقدامات کرناہونگے گویا اس وقت بی ٹیک انجینئرز امید بھری نگاہوں سے حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں اس سلسلہ میں مختلف تجاویز سامنے آتی رہی ہیں جن کے مطابق ان بی ٹیک انجینئرز کو پبلک سروس کمیشن میں مقابلے کے امتحان میں بھی مساوی طور پر حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے حکومت کو یہ بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا پی ای سی کوبھی دیگرغیرضروری امور چھوڑ کر انجینئرنگ پروفیشن کو ریگولیٹ کرنے کی طرف دھیان د یتے ہوئے ملکی ترقی میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے کسی بھی قانون کی تشریح کا اختیار صرف عدلیہ کے پاس ہے اور انتظامیہ قوانین پر عمل کرانے کی پابند ہے قوانین کی من پسند تشریحات ملک میں انارکی پھیلانے کا موجب بن سکتی ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہو گا ہر طرح کے تعصب سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا یہی ایک راز ہے ملکی ترقی کا،بی ٹیک انجینئرز کی فریاد ہم نے ان سطور کے ذریعہ حکومت کے سامنے رکھ دی ہیں اگر پی ای سی کی طرف سے بھی کوئی مؤقف سامنے آتاہے تو ہماری سطور حاضر ہیں تاہم اصل بات یہ ہے کہ ایسے تمام مسائل اور اختلافات باہم مل بیٹھ کرحل کرنے میں ہی سب کابھلاہے۔