تشویش سے بڑھ کر تشویشناک بات یہ ہے کہ پشاور میں کورونا وبا کا باعث بننے والے نئی قسم کے جرثومے (ڈیلٹا وائرس) کا پھیلاؤ 70 فیصد تک جا پہنچا ہے یعنی کورونا وبا سے نئے متاثر ہونے والوں میں اکثریت (قریب ستر فیصد) ڈیلٹا وائرس سے متاثر پائے گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں کورونا وبا معلوم کرنے کیلئے جانچ (ٹیسٹنگ) کی صلاحیت گنی چنی (محدود) ہونے کے باوجود اگر ہر 100 افراد میں سے 70 افراد کے بارے میں گمان ہے کہ وہ ڈیلٹا وائرس کی علامات رکھتے ہیں جو بیماری کی ایک انتہائی اور قریب لاعلاج قسم ہے اور جس میں کورونا وبا (Covid-19) کے مقابلے پھیلنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہے تو یہ اِس حقیقت پر جس قدر بھی تشویش کا اظہار کیا جائے وہ کم رہے گا کیونکہ عوام الناس کی اکثریت تاحال بے خبری اور لاپرواہی کی زندگی بسر کر رہی ہے جبکہ کورونا وبا کی کوئی بھی قسم ہو‘ روزمرہ معمولات سے لگتا یہی ہے کہ اہل پشاور کو ایک ایسے خطرے کی پرواہ نہیں جو اُن کے سروں پر منڈلا رہا ہے یا پھر وہ کورونا وبا کے بارے میں جانتے ہوئے بھی جاننا ہی نہیں چاہتے!کورونا وبا کے ’دسمبر 2019ء‘ میں ظاہر ہونے پر اِس کا نام اِسی مناسبت سے ’Covid-19‘ رکھا گیا جبکہ ’کووڈ‘ پہلے سے موجود جرثوموں کے ایک خاندان کا نام ہے لیکن اِس کے بعد ’کووڈ‘ کی اقسام کو یونانی الفاظ الفا (Alpha)‘ بیٹا (Beta)‘ ڈیلٹا (Delta) اور گاما (Gamma) سے شناخت کیا جاتا ہے لیکن یہ نام تکنیکی اور سائنسی پہلوؤں سے تحقیق کرنے والوں کیلئے ہیں۔ عام آدمی کے بس یہی سمجھنا ضروری اور کافی ہے کہ 1: گردوپیش میں ’کورونا وبا‘ موجود ہے 2: ’کورونا وبا‘ کی شدت برقرار ہے اور 3: کورونا وبا نامی خطرہ ٹلا نہیں جس سے بچنے کیلئے (حسب ہدایت) اور پہلے سے زیادہ احتیاطی تدابیر (SOPs) پر عمل درآمد کرنا چاہئے۔ محکمہئ صحت خیبرپختونخوا کے ایک انتظامی نگران سے ہوئی بات چیت کے دوران ’کورونا وبا‘ اور اِس کی شدت سے تحفظ فراہم کرنے والی ویکسین کے تکنیکی پہلوؤں کے بارے میں ہوئی بات چیت سے معلوم ہوا کہ ’کورونا وبا‘ کا باعث بننے والے جرثومے میں قدر مشترک یہ ہے کہ اِنہیں پھیلنے اور اپنی نسل بڑھانے کیلئے نمی والی آب و ہوا (نسبتاً ٹھنڈا موسم) چاہئے ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ کورونا کا باعث بننے والا جرثومہ سانس ہی کے ذریعے جسم میں داخل ہو بلکہ یہ کھانے پینے کی اشیا کے ہمراہ بھی انسانی جسم میں پہنچ سکتا ہے۔ اِس لئے کھانے پینے میں احتیاط ضروری ہے اور ایسے کسی بھی کھانے کی چیز استعمال نہ کی جائے نہ کی جائے جو اچھی طرح پکی نہ ہو۔ وبا کے جاری دور میں بہتر یہی ہے کہ 70ڈگری سنٹی گریڈ درجہئ حرارت سے کم پر پکے ہوئے گوشت یا کھانے نہ کھائے جائیں البتہ پینے کے صاف پانی یا مشروبات کے ذریعے کورونا منتقل ہونے کے شواہد نہیں ملے۔ خیبرپختونخوا میں کورونا کی وبائی صورتحال پر نظر رکھنے اور صحت عامہ سے متعلق فیصلہ سازی کرنے والوں کے بقول ”اگر موجودہ لہر (ڈیلٹا وائرس) پھیلنے کی شرح برقرار رہی یا اِس میں اضافہ ہوا تو بہت جلد سرکاری علاج گاہوں میں موجود سہولیات پر بوجھ بڑھ جائے گا جو پہلے ہی سے زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ پشاور سمیت دیگر اضلاع میں اُن سبھی افراد کے موبائل فون کنکشن ’31 اگست‘ سے بند کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے جو کورونا ویکسین کے ذریعے اپنے جسمانی مدافعاتی نظام کو فعال نہیں کرتے اور اپنے ساتھ گردوپیش میں دیگر صحت مند افراد کیلئے مستقل خطرہ ہیں۔ ویکسین نہ لگوانے والوں کے علاج معالجے سے بھی معذرت کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ وہ طبقہ جس کیلئے اپنی زندگی کی خاطرخواہ اہمیت نہیں وہ ویکسین کو سماجی ذمہ داری سمجھ کر لگوائیں۔پشاور کے سبھی سرکاری و نجی ہسپتالوں میں کورونا وبا سے متاثرہ مریضوں کیلئے مختص بستر بھر چکے ہیں اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)‘ نے صورتحال کو دیکھتے ہوئے کم سے کم 50 فیصد مزید بستروں کی گنجائش پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے لیکن یہ کام اِس قدر آسان نہیں کہ ضرورت پڑنے پر چٹکی بجاتے ہی سرانجام پا جائے اور نہ ہی علاج گاہوں میں صرف بستر (چارپائیاں بچھا کر) تعداد پوری کرنے سے مسئلہ حل ہوگا کیونکہ ڈیلٹا نامی جرثومے سے متاثرہ کورونا مریضوں کی اکثریت کو مصنوعی آلات تنفس اور چوبیس گھنٹے مسلسل مصنوعی آکسیجن فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سبھی بندوبست راتوں رات نہیں ہوسکتا۔ اعدادوشمار کے مطابق پشاور کی 20 فیصد آبادی کورونا ویکسین لگوا چکی ہے اور اِس سلسلے میں پشاور‘ چارسدہ‘ نوشہر‘ مہمند اور خیبر میں گھر گھر جا کر ویکسینیشن کا تجربہ کامیاب ثابت ہوا ہے‘ جسے وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ملک میں کورونا وبا پر نظر رکھنے والے وفاقی ادارے ’نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر (این سی او سی)‘ نے چوبیس اگست دوہزاراکیس کے روز 17 سال تک کی عمر کے افراد (مرد و خواتین) کیلئے بھی ویکسینیشن کے عمل کا آغاز کیا جنہیں قبل ازیں ویکسین کی ضرورت نہیں تھی لیکن ’کورونا وبا‘ کی نئی قسم کے بعد ضروری ہو گیا ہے کہ ہر بالغ کو ویکسین لگائی جائے۔ یہاں یہ اَمر بھی لائق توجہ ہے کہ ڈیلٹا نامی کورونا کی قسم چونکہ کم عمر بچوں کو بھی متاثر کرتی ہے اِس لئے اگلے مرحلے میں بچوں کی ویکسینیشن کو بھی قومی حکمت عملی میں شامل کیا جائے گا۔ عالمی سطح پر 18 سال سے کم عمر افراد میں کورونا وبا پھیلنے کی شرح 8.5 فیصد ہے لیکن جب پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں چونکہ اکثریت کورونا وبا سے احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد نہیں کرتی اِس لئے خدشہ یہی ہے کہ بچوں میں کورونا وبا کی شرح بھی عالمی معیار سے بلند ہوگی لیکن تاحال اِسے جاننے یا جانچنے کی جانب توجہ نہیں دی جا رہی۔ انگریزی زبان کا محاورہ ہے کہ ”لاعلمی سے زیادہ اطمینان (بسا اوقات) کسی دوسری حالت میں نہیں ملتا!“