مالی سال 2019-20کی آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ گیس کمپنیوں کے نقصانات 16.94 فیصد تک پہنچ گئے، ایک سال میں 66ارب 53 کروڑ 40 لاکھ روپے کی گیس چوری ہوئی۔رپورٹ کے مطابق سوئی سدرن میں گیس چوری کی شرح 16.94 فیصد رہی اور ایک سال میں 37 ارب 53 کروڑ 40 لاکھ روپے سے زائد کی گیس ضائع کی گئی، 15 ارب 27 کروڑ 90 لاکھ روپے کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا جبکہ قومی خزانے کو 22ارب 25 کروڑ 50 لاکھ روپے کا چونا لگایاگیا۔ سوئی نادرن نے مجموعی طور پر 28 ارب 93 کروڑ 40 لاکھ روپے کی گیس ضائع کی، اوگرا نے 18 ارب 23 کروڑ روپے 60 لاکھ روپے کی رقم گیس صارفین پر ڈالنے کی اجازت دی جبکہ 10ارب 69 کروڑ80 لاکھ روپے کا نقصان کمپنی کو برداشت کرنا پڑا۔آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے باوجود سوئی گیس کمپنیوں کا موقف ہے کہ سالانہ بنیادوں پر گیس کے نقصانات کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔آڈٹ حکام نے یو ایف جی میں کمی کے پلان پر عملدرآمد کرنے کی سفارش کردی۔گیس اور بجلی کی چوری اور لائن لاسز متعلقہ کمپنیوں کی بدانتظامی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور اس کا بوجھ ہمیشہ صارفین پر ڈالا جاتا ہے۔گذشتہ ایک سال کے دوران ملک کی دو بڑی گیس کمپنیوں میں 66ارب روپے گیس کی چوری کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ اعدادوشمار آڈٹ رپورٹ میں بتائے گئے ہیں جن کا دستاویزی ریکارڈ موجود ہے۔ آف دی ریکارڈ کتنی گیس چوری یا ضائع ہوتی ہے۔ اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ ملک میں گیس کے وافر ذخائر موجود ہیں ۔حکومت نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط پوری کرنے اور خود کو آئی ایم ایف کے قرضوں کا حق دار ثابت کرنے کے لئے بجلی اور گیس پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سبسڈی کے حوالے سے یہ انوکھافارمولہ وضع کیاگیا ہے کہ جو بھی صارف چھ مہینے میں تین سو یونٹ بجلی خرچ کرے گا۔وہ دولت مند تصور ہوگا اور سبسڈی کا حقدار نہیں ہوگا۔ حکومت بے شک گیس اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرے۔ لیکن اس کے ساتھ گیس اور بجلی کی قیمت سے زیادہ جو ٹیکسز بلوں میں صارفین سے وصول کئے جاتے ہیں وہ ختم کئے جائیں اور تین سو یونٹ سے زیادہ بجلی اورمقررہ یونٹ سے زیادہ گیس کے استعمال کی صورت میں قیمتوں میں پچاس سے سو فیصد تک اضافے کا جو غیر منطقی فارمولہ وضع کیا گیا ہے اسے ختم کیا جائے۔اگرچہ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کی فی یونٹ کی پیداواری لاگت چار روپے یونٹ ہے تاہم گیس، تیل، کوئلے، شمسی توانائی اور جوہری توانائی سے بھی چالیس فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ مختلف ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کی اوسط پیداواری لاگت آٹھ روپے یونٹ سے زیادہ نہیں ہے غیر ضروری ٹیکس اور محصولات ختم کرکے اگر حکومت بجلی کی قیمت دوگنی بھی کرے بجلی کی قیمت گھریلو صارفین کے لئے سولہ روپے یونٹ سے زیادہ نہیں پڑتی۔ پانچ سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے پر قیمت سولہ روپے فی یونٹ مقرر کرنی چاہئے‘پانچ سو یونٹ سے زیادہ استعمال پر قیمتوں میں رعایت دی جائے۔یہی پوری دنیا کا مسلمہ اصول ہے۔ پاکستان کے غریب عوام کب تک سرکاری محکموں افسروں اور اہلکاروں کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پراٹھاتے رہیں گے۔ہمارے حکمرانوں کو احساس ہے کہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ اور مہنگائی کی بنیادی وجہ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہے۔ جس کی وجہ سے ہر چیز کی پیداواری لاگت بڑھتی ہے۔