پاکستان کی تاریخ میں حسب ِحال و ضرورت اِصلاح اُور تحریک ِانصاف حکومت کے ’کار ہائے نمایاں‘ میں سرفہرست ’یکساں نصاب ِتعلیم‘ رائج کرنے کی کوششیں ہیں تاہم طبقاتی نصاب ِتعلیم سے چھٹکارہ اِس قدر آسان نہیں جس قدر دکھائی دیتا ہے۔نوجوانوں کو تعلیم کی آڑ میں جس مغربی تہذیب و ثقافت سے آشنا و مانوس کیا جاتا ہے اُور جس انداز میں اُسے ’ترقی کا زینہ‘ بنا دیا گیا ہے تو اِن سبھی سازشوں کو آسان بنانے کے لئے صرف اُور صرف نصاب ِتعلیم کا سہارا لیا جاتا ہے اُور یہی وہ نکتہ ہے‘ یہی وہ بنیاد ہے‘ جو اسلامی معاشرے کی مرکزیت قائم ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔وزیراعظم عمران خان نے ’پنجاب ایجوکیشن کنونشن 2021‘ سے (پچیس اگست کی شام‘ 20 منٹ سے زائد) خطاب میں کہا کہ ”مناسب تربیت نہ ہونے کے سبب نئی نسل تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ ماضی میں کسی نے تعلیم کی بہتری پر توجہ نہیں دی۔ طبقاتی نظام تعلیم نے معاشرے کو تقسیم کردیا۔ یکساں نصاب مستقبل میں ملک کے لئے فائدہ مند ہوگا اور ہمیں آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے بارے سوچنا ہے۔ ہمیں بچوں کو دنیا کے سب سے عظیم انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے بارے میں پڑھانا چاہئے۔”یقینا“یکساں تعلیمی نصاب تحریک انصاف حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ہے اُور وزیراعظم نے اپنی تقریر میں ایک مرحلے پر اشارہ کرتے ہوئے جس تلخ حقیقت کی جانب توجہ دلائی وہ یہ تھی کہ طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرنے کی راہ میں حکمراں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ جب وہ وزیراعظم بنے تو ہر تقریب میں انگریزی زبان بولی جاتی تھی جبکہ پاکستان کی 80فیصد آبادی کو انگلش نہیں آتی لیکن پارلیمنٹ اور سینٹ اجلاسوں میں ارکان انگریزی میں تقریر کرتے ہیں‘ یہ سب کچھ لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اُور پاکستان کی تنزلی کی بڑی وجہ تعلیمی نظام ہے۔ انگلش میڈیم سسٹم ذہنی غلامی لایا اُور انگلش میڈیم نظام تعلیم سے دور لیکن مغربی کلچر سے نزدیک اُور ذہنی طور پر غلام بنا دیا۔خلاصہئ کلام یہ ہے کہ ”پاکستان میں طبقاتی نظام تعلیم اور مغربی زبان کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی۔“ تحریک انصاف نے (پہلے مرحلے میں) پرائمری تک یکساں تعلیمی نصاب نفاذ کیا اور یہ بظاہر معمولی نظر آنے والے کام کو حاصل کرنے میں 3 سال صرف ہوئے۔ میٹرک تک یکساں تعلیمی نصاب کے نفاذ کے لئے مزید تین سال کی ضرورت کی بات کہی گئی جس سے وزیراعظم عمران خان نے اتفاق نہیں کیا اور وزارت ِتعلیم کو ہدایت کی کہ زیادہ سے زیادہ آئندہ چھ سات ماہ تک اس کی بھی تکمیل ہونی چاہئے لیکن یہاں چونکہ معاملہ تکنیکی نوعیت کا ہے اُور جلدبازی میں غلطی ہو سکتی ہے‘ جو تحریک ِانصاف کے گلے پڑ سکتی تھی اِس لئے نصاب ترتیب دینے والوں کو زیادہ تیزی کے ساتھ زیادہ محتاط بھی ہونا پڑ رہا ہے اُور لگتا نہیں کہ آئندہ چھ سات ماہ میں وزیراعظم کی ہدایت پر عمل ہو سکے گا مگر میٹرک تک نصاب ِتعلیم کو یکساں کرنے کے لئے مزید تین سال واقعی طویل عرصہ ہے۔ وزارت تعلیم کو آئندہ عام انتخابات (ممکنہ طور پر اگست یا ستمبر 2023ء) سے قبل میٹرک تک ”یکساں نصاب‘‘نفاذ کرنے کے سلسلے میں عملی اقدامات کرنا ہوں گے‘ تعجب خیز ہے کہ جو قومی جماعتیں دیگر منصوبوں کو قومی ضرورت کے مطابق نصاب تعلیم کی فراہمی پر ترجیح دیتی ہوں اُن سے نصاب تعلیم جیسے ”نرم و نفیس“ موضوع پر غور کرنے کی توقع رکھنا ”خود فریبی سی خود فریبی ہے …… پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے! (باقی صدیقی)۔“