جب کورونا نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیاتھاتو کوئی تصور بھی نہیں کرسکتاہے کہ حصول تعلیم اورعبادات تک کے سلسلہ اس سے شدید متاثر ہونے والے ہیں چنانچہ ایک پورا تعلیمی سال کورونا کی نذر ہوچکاہے جبکہ موجودہ تعلیمی سال پر بھی کورونا کا سایہ دراز ہے جس کی وجہ سے والدین اس وقت انتہائی بے چینی کا شکار ہیں جوحکومتی اقدامات کئے گئے تھے ان کو دیکھتے ہوئے تو یہ خیال تھاکہ تعلیمی منظرنامہ کی غیر یقینی اب تک کافی کم ہوجانی چاہئے تھی مگر چوتھی لہر کی وجہ سے حالات ہنوز جوں کے توں ہیں اْمید کی جاسکتی ہے کہ آگے چل کر صورتحال نسبتاً بہتر ہوگی اور طلبہ بغیر کسی خوف کے اسکول اور کالج جانے لگیں گے جس کے نتیجے میں پڑھائی لکھائی ازسرنو جاری ہوسکے گی مگر یہ اْمید پوری ہوگی یا نہیں، یہ کہنا مشکل ہے۔ گزشتہ سال بھی غیر یقینی صورتحال مارچ سے اپریل میں منتقل ہوئی، اپریل سے مئی میں اور یہ سفر اسی طرح جاری رہا حتیٰ کہ سال ختم ہوگیایہ سال بھی اسی طرح ضائع نہ ہو، اس کیلئے محکمہ تعلیم کو نہایت سنجیدگی سے سوچ بچار کرنا ہوگا کیونکہ جو تعلیمی نقصان روزانہ کی بنیاد پر ہورہا ہے اس کی تلافی کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی ”گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں“۔یہ نقصان محض ایک سال کے دوران پڑھائے جانے والے چند اسباق تک محدود نہیں ہے کیونکہ طلبہ کی مجموعی نشوونما متاثر ہے اْن میں دو طرح کے رجحانات کا مشاہدہ کیا جارہا ہے اول: پڑھائی لکھائی سے بے دلی، دوئم: فکر اور تشویش کہ اْن کے مستقبل کا کیا بنے گا۔ پہلا رجحان زہر قاتل ہے۔ اس سے کم پڑھے لکھے شہریوں کی آبادی میں اضافہ ہوگا، بے ہنر شہریوں کی بھیڑ بڑھے گی اور پائیدار ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے میں جو وقت درکار تھا، وہ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ گلوبل سٹیزن کے تصور کو ٹھیس پہنچانے والا نقصان ہے اگر طلبہ کی اس بے دلی کے خاتمہ کے لئے فوری کوششیں نہ کی گئیں تو مستقبل میں کئی مسائل کاسامناکرنا پڑسکتاہے اس حوالہ سے حکومت،اساتذہ اور والدین سب کو مشترکہ کوششیں کرناہونگی دوسرا رجحان طلبہ کی ذہنی و نفسیاتی صحت کے لئے مضر ہے۔ذہنی و نفسیاتی صحت پر خوشگوار اثر ڈالنے والی وہ خوشی جو سخت محنت کے بعد تعلیمی پیش رفت اور کامیابی سے حاصل ہوتی ہے، طلبہ گزشتہ سال اس سے محروم رہے۔ ان میں بہت سے ایسے تھے جنہیں نمایاں نمبرات سے کامیابی ملی مگر اْنہیں گلہ یہ تھا کہ امتحان کی فکر، خوف، دن رات پڑھنے کا دباؤوغیرہ کے نہ ہونے سے اْنہیں نمایاں کامیابی کی کوئی خوشی نہیں ہے سوا ل یہ پید اہوتاہے کہ کیا محکمہ تعلیم کے پاس ایسی کوئی حکمت عملی ہے جس سے تعلیم کو پوری توانائی کے ساتھ جاری و ساری کیا جائے اور جو نو عمر پڑھائی سے دور ہورہے ہیں اْنہیں ازسرنو وابستہ کیا جائے اور جو معمول کی پڑھائی نہ ہونے سے پریشان ہیں، اْن کی پریشانی دور ہو؟ اگر دوسرا سال بھی خدانخواستہ کورونا کی زد پر رہا تو کیا اس سال بھی ویسا ہی تعلیمی تعطل پایا جائیگا جیساکہ گزشتہ سال تھا؟ سال گذشتہ کے منفی پہلو گذشتہ دنوں ایٹا ٹیسٹ کے موقع پر کھل کرسامنے آگئے ہیں ایٹا کے ٹیسٹ میں طلبہ کی غالب اکثریت ناکامی سے دوچار ہوئی ہے اس حوالہ سے محکمہ تعلیم کی طرف سے یہ جواز تراشا جارہاہے کہ طلبہ کو پورا کورس پڑھنے کاموقع ہی نہیں ملاتھا باالفاظ دیگر یہ کورونا کے مارے ہوئے طلبہ تھے یہاں سوال یہ پیداہوا ہے کہ کیاحکومت کو یہ علم نہیں تھاکہ اس بار بچوں کی تیاری کسی بھی صورت معمول کی تیاری جیسی نہیں ہے کیونکہ اس دورا ن طلبہ ایک خاص مرحلہ سے گذرے ہیں اگر حکومت کو اس کااحساس تھا تو پھر ایٹا کاٹیسٹ کورونا کی صورت حال کے تناظر میں تیار کرناچاہئے تھاتاکہ بچے مایوسی کاشکار نہ ہوتے مگر یہاں آپس میں کوارڈینیشن کایہ عالم ہے کہ محکمہ تعلیم ایٹاوالوں کو صورتحال سمجھانے میں ہی ناکام ہے جبکہ ایٹا والے بھی محکمہ تعلیم سے رابطہ کی زحمت گوارہ کرنے کے لئے تیار نہیں ایٹا کاکیاہے اسے لاکھوں روپے فیس کی مد میں مل گئے فیل ہونے والے طلبہ کی مایوسی اور ان کے والد ین کے ذہنی کوفت کی ذمہ داری کوئی بھی لینے کو تیار نہیں کورونا نے پہلے ہی بہت نقصان کردیاہے اب مزید نقصان سے بچنے کی حکمت عملی ترتیب دینی ضروری ہے یاد رہنا چاہئے کہ ملک بھر کے طلبہ کا ہمہ جہتی نقصان ملک کے ہر شعبہ حیات پر مرتب ہوگا۔ یہ سوچنا کہ یہ محض تعلیمی نقصان ہے جس کی تلافی ڈگری تفویض کرنے کے ذریعہ کی جارہی ہے، یا، طلبہ کا سال ضائع نہیں ہورہا ہے، نہایت محدود زاویہ نگاہ ہے۔ اس ”خام تعلیم“ کے سبب ایک طرف طلبہ کی شخصیت اور حصول ملازمت کی صلاحیت متاثر ہوگی تو دوسری طرف تجارتی و کاروباری اداروں کو اْن کی ترجیح اور معیار پر پورا اْترنے والے افراد میسر نہیں آئیں گے۔ یہی نہیں، جن اذہان کے سہارے ملک میں نئی اور خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، وہ اذہان بھی کم تعداد میں ملک کو دستیاب ہوں گے۔ اس سے سماجی زندگی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ بلاشبہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی کورونا نے تباہی مچائی اور تعلیمی نقصان کیا مگر اْن ملکوں میں نقصان سے نمٹنے کی صلاحیت زیادہ ہے اس لئے ہم اْن کی مثال کو سامنے نہیں رکھ سکتے۔ ہم میں وہ صلاحیت کم ہے اس لئے ہماری توجہ زیادہ ہونی چاہئے، نقصان سے نمٹنے کی حکمت عملی بھی بہتر ہونی چاہئے طلبہ جیسے قیمتی سرمائے کے ضیاع کے تصورسے مہذب معاشرے کانپ اٹھتے ہیں کیونکہ ان کے نظام زندگی کی بنیاد ہی تعلیم طلبہ اوراساتذہ ہیں ہمارے ہاں اس کے الٹ معاملہ چل رہاہے تعلیم اورطلبہ کبھی بھی حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں رہے جبھی توا س ملک میں درجن بھر سے زائد تعلیمی نظام چلتے رہے ہیں کسی نے بھی یکساں نصاب اور مادری زبانوں میں ابتدائی کی تعلیم کی اہمیت کااحساس نہیں کیالارڈ میکالے کے دیئے ہوئے تعلیمی نظام کی وجہ سے طبقاتی نظام زندگی کے لئے افرادی قوت مہیا کرنے کاسلسلہ جاری رکھا گیا غریب بچے توپہلے ہی حالات اورنظام کے مارے ہوئے تھے اب رہی سہی کسر کوروناسے پیدا شدہ صورتحال نے پوری کردی ہے گلی محلوں میں قائم اکثر چھوٹے نجی سکول بند ہونے کے قریب ہیں جبکہ بڑے نجی سکولوں نے سکولوں کی بندش کے باوجوددھڑلے سے نہ صرف ٹیوشن فیسیں بلکہ بعض نے تو ٹرانسپور ٹ چارجزبھی وصول کرکے دکھائے حکومتی اعلانا ت کے باوجود کسی قسم کاریلیف والدین کونہیں مل سکا چنانچہ غریب اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اس وقت شدید ذہنی کشمکش کاشکار ہیں رہے دولت مند تو ان کے پاس خرچ کے لئے بہت کچھ ہے اورخود وزیر اعظم عمران خان باربار اس جانب اشارے بھی کرتے آرہے ہیں اللہ کرے یکساں نظام تعلیم کے حوالہ سے اب حکومتی کوششیں کامیابی سے ہمکنارہوجائیں تاکہ کورونا سے پہنچنے والے تعلیمی نقصان کے ازالے میں بھی مدد مل سکے۔