طالبان اور اصل چیلنجز 

افغانستان میں طالبان کے دور نو کا آغاز ہوچکاہے اس سے قبل کالم میں ذکر ہوچکاہے کہ بیس برس پہلے اورموجودہ طالبان میں کافی فرق ہے جس طرح بیس سال کے عرصہ میں افغان معاشرہ ایک ایسے ارتقائی عمل سے گذرا ہے جس کی واپسی ناممکن ہے اسی طرح طالبان بھی غیر محسوس انداز میں اس ارتقائی عمل سے گذر چکے ہیں چنانچہ پچھلی بار کی نسبت اس مرتبہ فاتح ہونے کے بعد وہ معاملات من مانی اور طاقت کے بل پرحل کرنے کے بجائے مصالحت،مفاہمت اورمکالمہ کے ذریعہ حل کرنے کی ڈگرپررواں دواں دکھائی دیتے ہیں کابل میں داخلہ کے بعدافغان طالبان نے بہت تیزی کے ساتھ اپنے منصوبوں پر عمل شروع کردیا ہے ساتھ ہی پوری دنیا سے بہتر تجارتی و سفارتی روابط قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اس دوران طالبان کے نمائندوں نے جمعرات کو ملک کے یوم آزادی کے موقع پر امارات اسلامیہ افغانستان کے قیام کا اعلان بھی کیا تاہم یہ اعلان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعہ کیا اس دوران طالبان نے اپنی پرچم بھی جاری کیا جو ممکنہ طور پر سفید ہو گا اور اس پر کلمہ طیبہ لکھا ہو گا۔طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی نئی حکومت کے قیام کا اعلان کریں گے اور حکومت کو شریعت کے مطابق ہی  چلایا جائے گا لیکن یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ یہاں کسی بھی دیگر مذہب کے ماننے والوں کو ان کے مذہب پر عمل پیرا رہنے کی مکمل آزادی ہو گی، خواتین کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی طالبان نے ان افواہوں کو  خارج کر دیا جن میں کہا جا رہا ہے کہ طالبان کسی ملک کے ساتھ تجارتی تعلقات نہیں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی جانب سے واضح کیا گیا کہ وہ  دنیا کے ہر ملک کے ساتھ بہتر سفارتی اور تجارتی تعلقات کے خواہاں ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے  اس بارے میں کہا کہ ان کی تنظیم نے کبھی نہیں کہا کہ وہ کسی ملک کے ساتھ تجارت نہیں کرنا چاہتی ہے۔ تنظیم ایسی کسی بھی افواہ کو خارج کرتی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اسلامی امارات تمام ممالک کے ساتھ بہتر سفارتی اور تجارتی رشتے چاہتی ہے‘ اس بابت جو افواہیں پھیلائی گئی ہیں، وہ سچ نہیں ہیں اور ہم اسے خارج کرتے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم پوری دنیا سے تجارتی تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں کسی بھی ملک سے ہم دشمنی نہیں چاہتے ہیں بلکہ بہتر تجارتی و سفارتی روابط ہمارا مقصد ہے۔ انہوں نے تجارتی تعلقات بہتر بنانے کے لئے کمیٹی بنانے پر بھی غور کرنے کا وعدہ کیا۔  اس دوران طالبان کی جانب سے ایک مرتبہ پھر اپنے وعدے یاد دلائے گئے  اور کہا گیا کہ افغانستان میں قائم ہونے والی ان کی حکومت شرعی اصولوں کے مطابق ہی عمل کرے گی۔ جمہوریت پر کوئی گفتگو نہیں ہو گی کیوں کہ افغانی معاشرہ میں جمہوری نظام کبھی نہیں رہا، یہ بیرونی حملہ آوروں نے مسلط کیا تھا۔ طالبان خواتین کو شریعت کی روشنی میں ان کے حقوق کی فراہمی کے لئے  پرعزم ہیں درحقیقت طالبان کی طرف سے تاحال کسی قسم کے نظام کے نفاذ کاباضابطہ اعلان نہیں کیاگیاہے اب تک جو خد وخال سامنے آرہے ہیں وہ ان کے ترجمان کی طرف سے ہیں چونکہ اس وقت طالبان ایک مشترکہ اور متفقہ نظام کی تشکیل چاہتے ہیں چنانچہ انہوں نے کابل میں موجود اہم افغان رہنماؤں سے ملاقاتوں کاسلسلہ شروع کردیاہے انہوں نے ملاقاتوں کاآغاز ہی اپنے دو بدترین مخالفین حامدکرزئی اور عبدا للہ عبداللہ سے کیاجوان کے خیرسگالی کے جذبہ کی عکاسی کرتاہے طالبان کے عزائم سے اندازہ ہوتاہے کہ نئی افغان حکومت علاقائی تجارت کے فروغ کے لئے جامع اورفوری اقدامات کویقینی بناناچاہتی ہے ویسے بھی طالبان کے ساتھ اس وقت جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ گورننس کاہی ہے کیونکہ اب تو اشرف غنی کابھائی تک سابق افغان حکومت کی کرپشن کی فریاد کرتا نظرآتاہے افغانستان کا اصل المیہ کرپٹ حکمران تھے ان کے حکمرانوں اورجرنیلوں نے توتجوریاں بھر کر راہ فرار اختیار کرلی مگر بے بس افغان باشندوں کو غیریقینی کی دلد ل میں چھوڑ گئے اس لئے اب گڈگورننس میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں رہی۔اس حوالہ سے تجزیہ کار کہہ چکے ہیں کہ ایک جامع معاشی،تعلیمی،آئینی اور عدالتی نظام کی تشکیل وقت کاتقاضا ہے اور اس معاملہ میں فوری اقدامات ہی طالبان یا بہ الفاظ دیگر نئی افغان انتظامیہ کی کامیابی کی بنیاد ثابت ہوسکیں گے معاشی ناہمواری کا خاتمہ اور روزگارکے زیادہ سے زیادہ مواقع کی فراہمی سے بے چین افغانوں کو مطمئن کیا جا سکتا ہے ساتھ ہی مستقبل میں کسی بھی قسم کی اندرونی بغاوتوں کو فرو کرنے کیلئے اب ایک منظم افغان فوج کی تشکیل بھی ناگزیرہوچکی ہے اس سلسلہ میں گذشتہ بیس سال کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے حقیقی بنیادوں پر ریگولرفورسز کے قیام کویقینی بناناہوگا اورحسب سابق اس فورس میں وارلارڈز یا اپنے من پسند لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پر کھپانے سے گریز بھی کرناہوگا نئی افغان حکومت کے لئے ایک بہت بڑا اور فوری ترین چیلنج عالمی برادری کااعتماد جیتنا بھی ہے فی الوقت کابل میں جو سکون اور اطمینان ہے اس کی بنیاد پر یہ کہاجاسکتاہے کہ عالمی برادری کے جو خدشات تھے وہ کافی حدتک دور ہوگئے ہونگے تاہم ابھی اس حوالہ سے مزید بہت سے اقدامات کئے جانے باقی ہیں۔عالمی برادری کااعتماد حاصل کرکے ہی دنیا بھر کے ساتھ قریبی سفارتی اورتجارتی تعلقات کے قیام کاخواب شرمندۂ تعبیر کیاجاسکتاہے اور صرف اسی طریقے سے افغانستان کی تعمیر نو کے لئے فنڈز کے حصول اور مضبوط معاشی نظام کی تشکیل کو یقینی بنایا جاسکتاہے بعض عناصر کی طرف سے طالبان کی صفوں میں اختلافات کے حوالہ سے جو خبریں پھیلائی جارہی ہیں اس حوالہ سے بھی طالبان قیادت کو کھل کر بات کرنی چاہئے تاکہ غلط فہمیاں جنم نہ لے سکیں اور خود طالبان کے حوالہ سے شکوک وشبہات پھیلانے کی کوشش بھی ناکام بنائی جاسکے افغانستان میں مستحکم حکومت کاقیام مضبوط فوج کے قیام سے کہیں زیادہ مستحکم معیشت کے قیام کے ذریعہ ممکن بنایاجاسکتاہے اور یہ سمجھنے کانکتہ ہے۔