غلط فہمی۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں کورونا وبا پر نظر رکھنے والے وفاقی (قومی) ادارے ’نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی)‘ نے (29 اگست کے روز) مزید 14شہروں میں کورونا احتیاطی تدابیر (SOPs) پر ”نہایت سختی“ سے عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔  یوں مجموعی طور پر 27 شہروں کے نام اُس فہرست کا حصہ ہیں‘ جہاں کورونا وبا کے علاج معالجے کی سہولیات ناکافی ہو رہی ہیں اور کورونا وبا سے متاثرین کی شرح میں بھی ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اُنتیس اگست کے روز پنجاب سے خانیوال‘ میانوالی‘ سرگودھا‘ خوشاب‘ بہاولپور‘ گوجرانولہ اور رحیم یار خان جبکہ خیبرپختونخوا سے سوات‘ ہری پور‘ مانسہرہ‘ لوئر دیر‘ صوابی اور چترال میں احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کرانے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد لی جائے گی۔کورونا وبا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر میں شامل ہے کہ 1: ہر قسم کی تجارتی و کاروباری سرگرمیاں رات آٹھ بجے تک ختم کر دی جائیں۔ 2: ہر ہفتے میں دو دن (ہفتہ و اتوار) کاروباری مراکز بند رکھے جائیں اور اِس سلسلے میں صوبوں کا یہ اختیار بھی دیا گیا کہ وہ کسی بھی ہفتے کے دو دن اپنی مرضی سے انتخاب کر سکتے ہیں۔ 3: ایک چھت تلے پرہجوم تقریبات نہ کی جائیں اور کھانے پینے کے ایسے مقامات رات 10بجے تک بند کرنے کے بعد کھانے پینے کی اشیاء گھروں میں (بطور take-away) فراہم کی جائیں۔ 4: مزارات‘ درگاہوں‘ خانقاہوں پر حاضری کی اجازت نہ دی جائے۔ 5: سینما ہالز اور بند رکھے جائیں۔ 6: ایسی کھیل کود کی سرگرمیاں منعقد نہ کی جائیں جن میں ہجوم ہوتا ہے جبکہ کھیل کود کیلئے صرف اُنہیں آپس میں ملنے جلنے کی اجازت دی جائے جنہوں نے ویکسین کا عمل مکمل کروا رکھا ہے۔ 7: سرکاری و نجی دفاتر میں تعینات ملازمین کی تعداد (حاضری) نصف یعنی 50فیصد رکھی جائے۔ 8: عوامی آمدورفت کے وسائل (پبلک ٹرانسپورٹ) میں مسافروں کی تعداد نشستوں کے تناسب سے نصف رکھی جائے جبکہ ریل گاڑیوں میں مسافروں کی گنجائش کے تناسب سے 70فیصد افراد کو سفر کی اجازت دی جائے۔ 9: تفریحی مقامات پر ہجوم سے گریز کیا جائے اور باغات و سبزہ زاروں سے استفادہ کرنے اجازت صرف ویکسین لگانے والوں کو اجازت دی جائے۔ 10: تعلیمی ادارے ہفتے میں 3 دن کھلے رکھے جائیں اور ہر دن طلبہ کی نصف یعنی پچاس فیصد حاضری رکھی جائے اور 11: شادی بیاہ‘ (خوشی یا غم) کی تقاریب میں مہمانوں (شرکا) کی تعداد زیادہ سے زیادہ 300 ہونی چاہئے۔ اِن تقاریب کا انعقاد کھلے مقامات پر ہو اور یہ تقاریب زیادہ سے زیادہ رات 10 بجے تک اختتام پذیر ہو جانی چاہئیں۔  این سی او سی کی جانب سے جاری کردہ ہدایات پر اگلی نظرثانی کیلئے ’13 ستمبر‘ کی تاریخ مقرر کی گئی ہے اور لائق توجہ امر یہ ہے کہ ہر مرتبہ اجلاس کے بعد شرائط میں اضافہ یا ان کی تفصیلات میں ردوبدل کر دیا جاتا ہے اور آئندہ اجلاس میں بھی یہی ہوگا کہ صوبوں کو جاری کی جانے والی مذکورہ گیارہ ہدایات میں چند ایک اضافہ یا اِن میں پائی جانے والی گنجائش ختم کر دی جائے گی لیکن بنیادی مسئلہ اپنی جگہ رہے گا کہ ایک طرف عام آدمی کورونا وبا کی موجودگی سے باخبر ہونے کے باوجود بھی اِس کی سنگینی کا احساس نہیں کر رہا تو دوسری طرف وفاقی حکومت کے احکامات پر عمل درآمد کروانے میں صوبوں کی جانب سے خاطرخواہ سختی و سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ جمہوریت کا حسن یہ ہوتا ہے کہ اِس میں حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلہ نہیں ہوتا بلکہ دونوں کی سوچ اور عمل ایک ہی ہوتے ہیں یعنی جمہوریت کی تالی جن دو ہاتھوں سے بجتی ہے اُس میں ایک ہاتھ حکمرانوں کا اور دوسرا ہاتھ عوام کا ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں جمہوریت صرف انتخابی عمل کو سمجھا جاتا ہے اور اِسے ہی احتساب و جوابدہی کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے جو سراسر غلط فہمی ہے۔ ملک کے کسی بھی حصے میں کورونا وبا پھیلنے کی بنیادی وجہ یہی ’غلط فہمی‘ ہے حکومتی اداروں کی جانب سے ’کورونا وبا‘ سے ممکنہ بچاؤ کیلئے جن احتیاطی تدابیر کی جانب عوام سے تعاون کی درخواست کی جاتی ہے لیکن ایسی عملی مثالیں قائم نہیں کی جاتیں جن میں حکمران اور سرکاری اہلکار بھی اِن پابندیوں پر اِن کی روح کے مطابق ’سختی سے عمل درآمد‘ کریں۔خیبرپختونخوا میں ویکسینیشن کا عمل ہر دن وسیع ہو رہا ہے اور ایک دن کے دوران ”32 ہزار افراد“ کو ویکسین دی جا رہی ہے جبکہ صوبائی حکومت کا ہدف ہے کہ 2 ماہ کے دوران کم سے کم 1 کروڑ افراد کی ویکسی نیشن کا عمل مکمل کر لیا جائے۔ صوبائی فیصلہ سازوں کے سامنے ایسے شواہد و حقائق موجود ہیں جن میں کم عمر بچے بھی کورونا وبا سے متاثر ہوئے ہیں لیکن چونکہ اُن کی تعداد (شرح) کم ہے تو اِس لئے فی الوقت اِس بارے حکمت عملی وضع نہیں کی جا رہی۔ دوسری اہم بات کورونا ویکسین لگوانے کی جعلی اسناد حاصل کرنے کے واقعات بھی ہیں‘ جن کی تعداد (مثالیں) اگرچہ کم ہیں لیکن قواعد کی خلاف ورزی کے علاوہ جعلی اسناد حاصل کرنے کی صورت جرم کرنے والوں کے خلاف خاطرخواہ کاروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی ایسی کاروائیاں زیرغور ہیں۔ قانون و قواعد پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو نشان عبرت بنانا وقت کی ضرورت ہے جبکہ حکومتی و غیرحکومتی فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ جو 11 ہدایات عوام کیلئے جاری کی گئی ہیں اِن کا یکساں اطلاق ضروری ہے۔